صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
2. بَابُ: {وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ} الآيَةَ:
باب: آیت کی تفسیر ”اور جو شخص نادار ہو وہ مناسب مقدار میں کھا لے اور جب امانت ان یتیم بچوں کے حوالے کرنے لگو تو ان پر گواہ بھی کر لیا کرو“ آخر آیت تک۔
وَبِدَارًا: مُبَادَرَةً، أَعْتَدْنَا: أَعْدَدْنَا، أَفْعَلْنَا مِنَ الْعَتَادِ.
‏‏‏‏ «بدارا» بمعنی «مبادرة» جلدی کرنا۔ «أعتدنا» بمعنی «أعددنا»، «عتاد» سے۔ «أفعلنا» کے وزن پر جس کے معنی ہم نے تیار کیا۔
حدیث نمبر: 4575
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فِي قَوْلِهِ تَعَالَى:" وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ سورة النساء آية 6، أَنَّهَا نَزَلَتْ فِي وَالِي الْيَتِيمِ إِذَا كَانَ فَقِيرًا، أَنَّهُ يَأْكُلُ مِنْهُ مَكَانَ قِيَامِهِ عَلَيْهِ بِمَعْرُوفٍ".
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن نمیر نے خبر دی، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «ومن كان غنيا فليستعفف ومن كان فقيرا فليأكل بالمعروف‏» بلکہ جو شخص خوشحال ہو وہ اپنے کو بالکل روکے رکھے۔ البتہ جو شخص نادار ہو وہ واجبی طور پر کھا سکتا ہے۔ کے بارے میں فرمایا کہ یہ آیت یتیم کے بارے میں اتری ہے کہ اگر ولی نادار ہو تو یتیم کی پرورش اور دیکھ بھال کی اجرت میں وہ واجبی طور پر (یتیم کے مال میں سے کچھ) کھا سکتا ہے (بشرطیکہ نیت میں فساد نہ ہو)۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4575  
4575. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، وہ اس ارشاد باری تعالٰی کے متعلق فرماتی ہیں: "اور جو سرپرست خوشحال ہو وہ خود کو بچائے رکھے اور جو تنگ دست ہو وہ دستور کے مطابق کھائے۔" یہ آیت مال یتیم کے متعلق نازل ہوئی، یعنی اگر سرپرست نادار ہے تو یتیم کی پرورش کے عوض اس کے مال سے دستور کے مطابق کھا سکتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4575]
حدیث حاشیہ:

اس روایت میں ہے کہ یہ آیت کریمہ یتیم کے سر پرست کے متعلق نازل ہوئی ہے جو یتیم کی دیکھ بھال اور اس کے مال کی حفاظت کرتا ہے کہ اگر وہ نادار ہے تو دستور کے مطابق بطور حق الخدمت اس کے مال سے کھا سکتا ہے۔
(صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2212)

حضرت عائشہ ؒ کی بیان کردہ اس تفسیر کی تائید میں ایک مرفوع روایت بھی ہے چنانچہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں ایک آدمی حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا:
اللہ کے رسول اللہ ﷺ! ایک یتیم میری کفالت میں ہے اور اس کے پاس مال بھی ہے جبکہ میرے پاس کچھ نہیں۔
کیا میں اس کے مال سے کچھ کھا سکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا:
"ہاں دستور کے مطابق تو کھا سکتا ہے۔
" (تفسیر ابن أبي حاتم، سورہ النساء، آیت: 6۔
رقم: 2824)

ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا:
"تو اپنے یتیم کے مال سے کھا سکتا ہے لیکن اسراف اور فضول خرچی نہ ہو نہ جلدی کرنے والا اور نہ تو اس کے مال سے کوئی جمع پونجی بنانے والا ہی ہو۔
'' (سنن أبي داود، الوصایا، حدیث: 2872)

وہ دستور کیا ہے جس کے مطابق ایک نادار شخص اپنے زیر کفالت یتیم کے مال سے کھا سکتا ہے؟ حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں وہ اپنی انگلیوں کے پوروں سے لے، لے یعنی بہت کم خرچ کرے۔
(تفسیر جامع البیان في تأویل القرآن: 586/7۔
رقم: 8621)

ایک روایت میں ہے۔
وہ یتیم کے مال سے صرف اس قدر کھائے جس سے اس کی بھوک دور ہو جائے۔
اور اس قدر پہنے جس سے اس کی ستر پوشی ہو جائے۔
(تفسیر جامع البیان في تأویل القرآن: 587/7۔
رقم: 8630۔
وفتح الباري: 304/8)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4575