صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
5. بَابُ: {وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور تمہارے لیے اس مال کا آدھا حصہ ہے جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں جبکہ ان کے اولاد نہ ہو“۔
حدیث نمبر: 4578
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ وَرْقَاءَ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كَانَ الْمَالُ لِلْوَلَدِ، وَكَانَتِ الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ، فَنَسَخَ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ مَا أَحَبَّ، فَجَعَلَ لِلذَّكَرِ مِثْلَ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ، وَجَعَلَ لِلْأَبَوَيْنِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسَ وَالثُّلُثَ، وَجَعَلَ لِلْمَرْأَةِ الثُّمُنَ وَالرُّبُعَ، وَللزَّوْجِ الشَّطْرَ وَالرُّبُعَ".
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، ان سے ورقاء بن عمر یشکری نے، ان سے ابن ابی نجیح نے، ان سے عطاء نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ابتداء اسلام میں میت کا سارا مال اولاد کو ملتا تھا، البتہ والدین کو وہ ملتا جو میت ان کے لیے وصیت کر جائے، پھر اللہ تعالیٰ نے جیسا مناسب سمجھا اس میں نسخ کر دیا۔ چنانچہ اب مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصہ کے برابر ہے اور میت کے والدین یعنی ان دونوں میں ہر ایک کے لیے اس مال کا چھٹا حصہ ہے۔ بشرطیکہ میت کے کوئی اولاد ہو، لیکن اگر اس کے کوئی اولاد نہ ہو، بلکہ اس کے والدین ہی اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں کا ایک تہائی حصہ ہو گا اور بیوی کا آٹھواں حصہ ہو گا، جبکہ اولاد ہو، لیکن اگر اولاد نہ ہو تو چوتھائی ہو گا اور شوہر کا آدھا حصہ ہو گا، جبکہ اولاد نہ ہو لیکن اگر اولاد ہو تو چوتھائی ہو گا۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4578  
4578. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: (ابتداء) میت کا سارا مال اولاد کو ملتا تھا اور والدین کو وہی کچھ ملتا جو مرنے والا ان کے لیے وصیت کر جاتا۔ پھر اللہ تعالٰی نے اپنی صوابدید کے مطابق اس میں ترمیم کر دی، چنانچہ (اللہ تعالٰی نے) مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر مقرر فرمایا اور والدین میں سے ہر ایک کے لیے چھٹا اور تہائی حصہ مقرر فرمایا اور اسی طرح بیوی کے لیے آٹھواں اور چوتھا، نیز خاوند کے لیے آدھا اور چوتھا حصہ طے کر دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4578]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں دور جاہلیت اور بتدائے اسلام والی تقسیم میراث کی صورت حال کو بیان کیا گیا ہے چنانچہ ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب آیت میراث نازل ہوئی تو لوگوں نے عرض کی، اللہ کے رسول اللہ ﷺ!کیا ہم چھوٹی لڑکی کو نصف میراث دے دیا کریں جبکہ نہ تو وہ گھوڑے پر سواری کر سکتی ہے اور نہ اس سے دشمن کا دفاع ہی ممکن ہے؟ بہر حال دور جاہلیت کا یہی دستور تھا کہ میراث صرف اسے دی جاتی جو میدان کارزار میں جنگجو ہوتا۔
(تفسیر جامع البیان في تأویل القرآن، تفسیر سورہ النساء، آیت 11۔
وفتح الباري: 308/8)


اس میں نہایت اختصار کے ساتھ ورثاء کے حصے بیان کیے گئے ہیں کیونکہ والد کو ایک تہائی کسی صورت میں نہیں دیا جاتا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک حالت میں والدین کو چھٹا چھٹا حصہ جبکہ میت کی اولاد ہو، اور ایک حالت میں ماں کو ایک تہائی ملتا ہے جب مرنے والے کی اولاد نہ ہو اسی طرح بیوی کو آٹھواں حصہ اس صورت میں دیا جاتا ہے جب مرنے والے خاوند کی اولاد ہو۔
اگر اولاد نہ ہو تو بیوی کو چوتھا حصہ دیا جاتا ہے اور خاوند کو نصف میت کی اولاد نہ ہونے کی صورت میں ملتا ہے اور اگر میت کی اولاد ہو تو خاوند کو چوتھا حصہ ملتا ہے۔
تفصیل کے لیے کتاب الفرائض کا مطالعہ کیا جائے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4578