صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
54. بَابُ الصَّلاَةِ فِي الْبِيعَةِ:
باب: گرجا میں نماز پڑھنے کا بیان۔
وَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنَّا لَا نَدْخُلُ كَنَائِسَكُمْ مِنْ أَجْلِ التَّمَاثِيلِ الَّتِي فِيهَا الصُّوَرُ، وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يُصَلِّي فِي الْبِيعَةِ إِلَّا بِيعَةً فِيهَا تَمَاثِيلُ.
‏‏‏‏ اور عمر رضی اللہ عنہ نے کہا او نصرانیو! ہم آپ کے گرجاؤں میں اس وجہ سے نہیں جاتے کہ وہاں مورتیں ہوتی ہیں اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما گرجا میں نماز پڑھ لیتے مگر اس گرجا میں نہ پڑھتے جس میں مورتیں ہوتیں۔
حدیث نمبر: 434
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ ذَكَرَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَنِيسَةً رَأَتْهَا بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ يُقَالُ لَهَا مَارِيَةُ، فَذَكَرَتْ لَهُ مَا رَأَتْ فِيهَا مِنَ الصُّوَرِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُولَئِكَ قَوْمٌ إِذَا مَاتَ فِيهِمُ الْعَبْدُ الصَّالِحُ أَوِ الرَّجُلُ الصَّالِحُ بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا وَصَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّوَرَ، أُولَئِكَ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ".
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبدہ بن سلیمان نے خبر دی، انہوں نے ہشام بن عروہ سے، انہوں نے اپنے باپ عروہ بن زبیر سے، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک گرجا کا ذکر کیا جس کو انہوں نے حبش کے ملک میں دیکھا اس کا نام ماریہ تھا۔ اس میں جو مورتیں دیکھی تھیں وہ بیان کیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایسے لوگ تھے کہ اگر ان میں کوئی نیک بندہ (یا یہ فرمایا کہ) نیک آدمی مر جاتا تو اس کی قبر پر مسجد بناتے اور اس میں یہ بت رکھتے۔ یہ لوگ اللہ کے نزدیک ساری مخلوقات سے بدتر ہیں۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 705  
´قبروں کو مساجد بنانے کی ممانعت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام المؤمنین ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہم دونوں نے ایک کنیسہ (گرجا گھر) کا ذکر کیا جسے ان دونوں نے حبشہ میں دیکھا تھا، اس میں تصویریں تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ لوگ ایسے تھے کہ جب ان میں کا کوئی صالح آدمی مرتا تو یہ اس کی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیتے، اور اس کی مورتیاں بنا کر رکھ لیتے، یہ لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین مخلوق ہوں گے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 705]
705 ۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت ام سلمہ اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اپنے اپنے خاوندوں کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں شامل تھیں۔ وہ عیسائیوں کا ملک تھا۔
➋ نیک آدمی کی قبر پر مسجد بنا کر اس میں اس نیک آدمی اور دوسرے صالحین کی تصویریں بناتے تھے۔ مقصد تو تعظیم اور ان کی یاد ہوتی تھی مگر آہستہ آہستہ ان تصویروں کی پوجا شروع ہو جاتی تھی، اس لیے شریعت نے قبروں پر مسجدوں سے مطلقاً منع کر دیا کہ یہ شرک کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔ اور واقعتاً جن قبروں پر یا ان کے قریب مساجد بنی ہوئی ہیں، ان قبروں کی پوجا ہوتی ہے، اسی لیے انہیں بدترین مخلوق کہا گیا۔
➌ صالحین سے مراد انبیاء کے حواری (اولین پیروکار) یا علماء و رہبان ہیں کیونکہ عیسائی انہیں نبیوں کی طرح سمجھتے اور ان کی غیر مشروط اطاعت کرتے تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 705   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 434  
434. حضرت عائشہ‬ ؓ ب‬یان کرتی ہیں کہ حضرت ام سلمہ‬ ؓ ن‬ے رسول اللہ ﷺ سے اس گرجا گھر کا ذکر کیا جسے انھوں نے سرزمین حبشہ میں دیکھا تھا، جس کا نام ماریہ تھا۔ حضرت ام سلمہ‬ ؓ ن‬ے اس میں جو تصاویر دیکھیں تھیں انہیں بیان کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ وہ لوگ تھے جب ان میں کوئی نیک انسان فوت ہو جاتا تو یہ اس کی قبر پر مسجد تعمیر کر دیتے، پھر وہاں یہ تصویریں بنا دیتے تھے۔ یہی لوگ اللہ کے ہاں بدترین مخلوق ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:434]
حدیث حاشیہ:
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ ترجمہ اورباب میں مطابقت یہ ہے کہ اس میں یہ ذکر ہے کہ وہ لوگ اس کی قبر پر مسجد بنالیتے، اس میں یہ اشارہ ہے کہ مسلمان کو گرجا میں نماز پڑھنا منع ہے۔
کیونکہ احتمال ہے کہ گرجا کی جگہ پہلے قبر ہو اورمسلمان کے نماز پڑھنے سے وہ مسجد ہوجائے۔
ان عیسائیوں سے بدترآج ان مسلمانوں کا حال ہے جو مزاروں کو مسجدوں سے بھی زیادہ زینت دے کر وہاں بزرگوں سے حاجات طلب کرتے ہیں۔
بلکہ ان مزاروں پر سجدہ کرنے سے بھی باز نہیں آتے، یہ لوگ بھی اللہ کے نزدیک بدترین خلائق ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 434   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:434  
434. حضرت عائشہ‬ ؓ ب‬یان کرتی ہیں کہ حضرت ام سلمہ‬ ؓ ن‬ے رسول اللہ ﷺ سے اس گرجا گھر کا ذکر کیا جسے انھوں نے سرزمین حبشہ میں دیکھا تھا، جس کا نام ماریہ تھا۔ حضرت ام سلمہ‬ ؓ ن‬ے اس میں جو تصاویر دیکھیں تھیں انہیں بیان کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ وہ لوگ تھے جب ان میں کوئی نیک انسان فوت ہو جاتا تو یہ اس کی قبر پر مسجد تعمیر کر دیتے، پھر وہاں یہ تصویریں بنا دیتے تھے۔ یہی لوگ اللہ کے ہاں بدترین مخلوق ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:434]
حدیث حاشیہ:

یہ حدیث پہلے 427 کے تحت بیان ہو چکی ہے۔
اس کی تشریح وہاں دیکھی جا سکتی ہے۔
اس مقام پر امام بخاری ؒ کا مقصد یہ وضاحت کرنا ہے کہ یہود ونصاری کے عبادت خانوں میں تصاویر کب اور کیوں داخل ہوئیں، کیونکہ پہلے بیان ہو چکا ہےکہ ان کے عبادت خانوں میں نماز پڑھنے کی وجہ صرف تصاویر تماثیل کا موجودہونا ہے۔

حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں امام بخاری ؒ اس حدیث سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ایک مسلمان کو گرجے میں نماز پڑھنا جائز ہے، کیونکہ احتمال ہے کہ گرجے کی جگہ پہلے قبر ہو اور مسلمان کے نماز پڑھنے کی وجہ سے اسے مسجد کا مقام دے دیا جائے۔
(فتح الباری: 668/1)
ان عیسائیوں سے بدترآج ان نام نہاد مسلمانوں کا حال ہے جو مزارات کو مساجد کا مقام دے کر وہاں نمازیں پڑھتے ہیں اور وہاں صاحب قبر کے حضورجبین نیاز جھکا کر سجدے کرتے اور ان سے حاجات طلب کرتے ہیں۔
یہ لوگ بھی اللہ کے ہاں بدترین خلائق ہیں۔
اللہ تعالیٰ انھیں ہوش کے ناخن لینے کی توفیق دے. 3۔
ابن بطال ؒ نے امام مالک ؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ میں ان کے کنیساؤں میں نماز پڑھنا ناپسند کرتا ہوں، کیونکہ یہ لوگ وہاں خنزیر کا گوشت کھاتے ہیں اور شراب پیتے ہیں جس کی وجہ سے اس کا طاہر ہونا یقینی نہیں۔
ہاں! اگر کوئی جگہ نہ ہو یا باہر کیچڑیا بارش ہو رہی ہو تو بامر مجبوری نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔
(شرح ابن بطال: 89/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 434