صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
6. بَابُ: {لاَ يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا} الآيَةَ:
باب: آیت کی تفسیر ”تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم بیوہ عورتوں کے زبردستی مالک بن جاؤ“ آخر آیت تک۔
وَيُذْكَرُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: لَا تَعْضُلُوهُنَّ: لَا تَقْهَرُوهُنَّ، حُوبًا: إِثْمًا، تَعُولُوا: تَمِيلُوا، نِحْلَةً: النِّحْلَةُ الْمَهْرُ.
‏‏‏‏ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ (آیت میں) «لا تعضلوهن» کے معنی یہ ہیں کہ ان پر جبر و قہر نہ کرو، «حوبا» یعنی گناہ۔ «تعولوا» یعنی «تميلوا» جھکو تم۔ لفظ «نحلة» مہر کے لیے آیا ہے۔
حدیث نمبر: 4579
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ، حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ الشَّيْبَانِيُّ: وَذَكَرَهُ أَبُو الْحَسَنِ السُّوَائِيُّ، وَلَا أَظُنُّهُ ذَكَرَهُ إِلَّا، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا وَلا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ سورة النساء آية 19، قَالَ:" كَانُوا إِذَا مَاتَ الرَّجُلُ، كَانَ أَوْلِيَاؤُهُ أَحَقَّ بِامْرَأَتِهِ إِنْ شَاءَ بَعْضُهُمْ تَزَوَّجَهَا، وَإِنْ شَاءُوا زَوَّجُوهَا، وَإِنْ شَاءُوا لَمْ يُزَوِّجُوهَا، فَهُمْ أَحَقُّ بِهَا مِنْ أَهْلِهَا، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي ذَلِكَ".
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم سے اسباط بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسحاق شیبانی نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اور شیبانی نے کہا کہ یہ حدیث ابوالحسن عطا سوائی نے بھی بیان کی ہے اور جہاں تک مجھے یقین ہے ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی سے بیان کیا ہے کہ آیت «يا أيها الذين آمنوا لا يحل لكم أن ترثوا النساء كرها ولا تعضلوهن لتذهبوا ببعض ما آتيتموهن‏» اے ایمان والو! تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم عورتوں کے زبردستی مالک ہو جاؤ اور نہ انہیں اس غرض سے قید رکھو کہ تم نے انہیں جو کچھ دے رکھا ہے، اس کا کچھ حصہ وصول کر لو، انہوں نے بیان کیا کہ جاہلیت میں کسی عورت کا شوہر مر جاتا تو شوہر کے رشتہ دار اس عورت کے زیادہ مستحق سمجھے جاتے۔ اگر انہیں میں سے کوئی چاہتا تو اس سے شادی کر لیتا، یا پھر وہ جس سے چاہتے اسی سے اس کی شادی کرتے اور چاہتے تو نہ بھی کرتے، اس طرح عورت کے گھر والوں کے مقابلہ میں بھی شوہر کے رشتہ دار اس کے زیادہ مستحق سمجھے جاتے، اسی پر یہ آیت «يا أيها الذين آمنوا لا يحل لكم أن ترثوا النساء كرها» نازل ہوئی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4579  
4579. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، وہ درج ذیل آیت کے متعلق فرماتے ہیں: "اے ایمان والو! تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے مالک بن بیٹھو اور نہ اس غرض ہی سے انہیں قید رکھو کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو اس کا کچھ مال لے جاؤ۔" دور جاہلیت کا یہ دستور تھا کہ جب کوئی آدمی مر جاتا تو اس کے رشتہ دار اس کی بیوی کے حق دار خیال کیے جاتے۔ ان میں سے کوئی چاہتا تو اس سے شادی کر لیتا، یا اپنی مرضی کے مطابق کسی دوسری جگہ اس کا نکاح کر دیتا، چاہتے تو بغیر شادی کے اسے پڑا رہنے دیتے، یعنی عورت کے گھر والوں کی نسبت میت کے رشتے دار اس کے زیادہ حق دار خیال کیے جاتے تھے۔ اس زیادتی کے تدارک کے لیے یہ آیت نازل ہوئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4579]
حدیث حاشیہ:
اب کہاں ہیں وہ پادری لوگ جو اسلام پر طعنہ مارتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کو لونڈی بنا دیا۔
اسلام کی برکت سے تو عورتیں آدمی ہوئیں، ورنہ عرب کے لوگوں نے تو گائے بیل کی طرح ان کو مال اسباب سمجھ لیا تھا۔
عورت کو ترکہ نہ ملتا، اسلام نے ترکہ دلایا۔
عورت کو جتنی چاہتے بے گنتی طلاق دیئے جاتے، عدت نہ گزارنے پاتی کہ ایک اور طلاق دے دیتے، اس کی جان غضب میں رہتی۔
اسلام نے تین طلاق کی حد باندھ دی۔
خاوند کے مرنے کے بعد عورت اس کے وارثوں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی کی طرح رہتی۔
اسلام نے عورت کو پورا اختیار دیا چاہے نکاح ثانی پڑھالے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4579   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4579  
4579. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، وہ درج ذیل آیت کے متعلق فرماتے ہیں: "اے ایمان والو! تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے مالک بن بیٹھو اور نہ اس غرض ہی سے انہیں قید رکھو کہ جو کچھ تم انہیں دے چکے ہو اس کا کچھ مال لے جاؤ۔" دور جاہلیت کا یہ دستور تھا کہ جب کوئی آدمی مر جاتا تو اس کے رشتہ دار اس کی بیوی کے حق دار خیال کیے جاتے۔ ان میں سے کوئی چاہتا تو اس سے شادی کر لیتا، یا اپنی مرضی کے مطابق کسی دوسری جگہ اس کا نکاح کر دیتا، چاہتے تو بغیر شادی کے اسے پڑا رہنے دیتے، یعنی عورت کے گھر والوں کی نسبت میت کے رشتے دار اس کے زیادہ حق دار خیال کیے جاتے تھے۔ اس زیادتی کے تدارک کے لیے یہ آیت نازل ہوئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4579]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں اس کی مزید تفصیل ہے کہ جب کوئی آدمی مرجاتا تو اس کے رشتے دار بیوہ پر کپڑا ڈال دیتے اور اس کے عزیز واقارب کو اس کے پاس نہ آنے دیتے۔
اگر وہ خوبصورت ہوتی تو اس سے خود نکاح کر لیتے اور اگر بدصورت ہوتی تو اسے روکے رکھتے حتی کہ مر جاتی تو اس کے مال و متاع کے وارث بن جاتے۔
(تفسیر الطبري، سورہ النساء:
آیت: 19)


یہ آیت کریمہ حضرت کبشہ بنت معن کے متعلق نازل ہوئی اور وہ ابو قیس بن اسلت کے نکاح میں تھی۔
جب اس کا خاوند ابو قیس فوت ہوا تو اس کے بیٹے نے کبشہ سے نکاح کرنا چاہا چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی:
اللہ کے رسول اللہ ﷺ! نہ تو میں نے اپنے خاوند سے کچھ وراثت پائی ہے اور نہ مجھے آزاد ہی کیا جا تا ہے کہ میں آگے نکاح کر لوں۔
اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔
(فتح الباري: 311/8)

بہر حال عورت ترکے کا مال تصور ہوتی تھی اور اس کا سوتیلا بیٹا یا میت کا بھائی ہوتا تھا۔
اس پر خاوند کے وارثوں کا اختیار ہوتا عورتوں کے وارثوں کا کچھ اختیار نہ ہوتا چنانچہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد عورتوں کو پوری عزت ملی اور انھیں پورے آزادانہ حقوق دیے گئے۔
واللہ علم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4579