صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
7. بَابُ: {وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ} الآيَةَ:
باب: آیت کی تفسیر ”اور جو مال والدین اور قرابت دار چھوڑ جائیں اس کے لیے ہم نے وارث ٹھہرا دیئے ہیں“۔
وَقَالَ مَعْمَرٌ: أَوْلِيَاءُ مَوَالِي وَأَوْلِيَاء، وَرَثَةٌ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ هُوَ مَوْلَى الْيَمِينِ، وَهْوَ الْحَلِيفُ وَالْمَوْلَى أَيْضًا، ابْنُ الْعَمِّ، وَالْمَوْلَى الْمُنْعِمُ الْمُعْتِقُ، وَالْمَوْلَى الْمُعْتَقُ، وَالْمَوْلَى الْمَلِيكُ، وَالْمَوْلَى مَوْلًى فِي الدِّينِ.
‏‏‏‏ معمر نے کہا کہ «موالي» سے مراد اس کے اولیاء اور وارث ہیں۔ «والذين عقدت ايمانكم» سے وہ لوگ مراد ہیں جن کو قسم کھا کر اپنا وارث بناتے تھے یعنی حلیف۔ اور «مولى» کے کئی معانی آئے ہیں، چچا کا بیٹا، غلام، لونڈی کا مالک، جو اس پر احسان کرے، اس کو آزاد کرے، خود غلام، جو آزاد کیا جائے، مالک، دین کا پیشوا۔
حدیث نمبر: 4580
حَدَّثَنِي الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ إِدْرِيسَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:" وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ سورة النساء آية 33، قَالَ: وَرَثَةً، وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ سورة النساء آية 33 كَانَ الْمُهَاجِرُونَ لَمَّا قَدِمُوا الْمَدِينَةَ يَرِثُ الْمُهَاجِرِيُّ الْأَنْصَارِيَّ دُونَ ذَوِي رَحِمِهِ لِلْأُخُوَّةِ الَّتِي آخَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمْ، فَلَمَّا نَزَلَتْ وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ سورة النساء آية 33، نُسِخَتْ، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ سورة النساء آية 33 مِنَ النَّصْرِ، وَالرِّفَادَةِ، وَالنَّصِيحَةِ، وَقَدْ ذَهَبَ الْمِيرَاثُ وَيُوصِي لَهُ"، سَمِعَ أَبُو أُسَامَةَ إِدْرِيسَ، وَسَمِعَ إِدْرِيسُ طَلْحَةَ.
ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ادریس نے، ان سے طلحہ بن مصرف نے، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ (آیت میں) «ولكل جعلنا موالي‏» سے مراد وارث ہیں اور «والذين عاقدت أيمانكم‏» کی تفسیر یہ ہے کہ شروع میں جب مہاجرین مدینہ آئے تو قرابت داروں کے علاوہ انصار کے وارث مہاجرین بھی ہوتے تھے۔ اس بھائی چارہ کی وجہ سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار کے درمیان کرایا تھا، پھر جب یہ آیت نازل ہوئی کہ «ولكل جعلنا موالي‏» تو پہلا طریقہ منسوخ ہو گیا پھر بیان کیا کہ «والذين عاقدت أيمانكم‏» سے وہ لوگ مراد ہیں، جن سے دوستی اور مدد اور خیر خواہی کی قسم کھا کر عہد کیا جائے۔ لیکن اب ان کے لیے میراث کا حکم منسوخ ہو گیا مگر وصیت کا حکم رہ گیا۔ اس اسناد میں ابواسامہ نے ادریس سے اور ادریس نے طلحہ بن مصرف سے سنا ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4580  
4580. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ﴿وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ﴾ میں مَوَالِيَ سے مراد وارث ہیں۔ اور ﴿وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ﴾ سے مراد یہ ہے کہ جب مہاجرین، ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آئے تو اس بھائی چارے کی وجہ سے جو نبی ﷺ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان کرایا تھا، قرابت داروں کے علاوہ انصار کے وارث مہاجرین بھی ہوتے تھے۔ پھر جب یہ آیت ﴿وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ﴾ نازل ہوئی تو یہ دستور منسوخ ہو گیا۔ پھر بیان کیا کہ ﴿وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ﴾ سے مراد وہ لوگ ہیں جن سے مدد و معاونت اور خیرخواہی کا معاہدہ ہوا ہو۔ اب ان کے لیے میراث کا حکم تو منسوخ ہو گیا، البتہ ان کی خاطر وصیت کی جا سکتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4580]
حدیث حاشیہ:
مہاجرین جب مدینہ آئے تو انصار نے ان کو منہ بولا بھائی بنا لیا تھا۔
یہاں تک کہ ان کو اپنے ترکہ میں حصہ دار بنا لیا، بعد میں بتلایا گیا کہ ترکہ کے وارث صرف اولاد اور متعلقین ہی ہو سکتے ہیں۔
ہاں تہائی مال کی وصیت کرنے کا حق دیا گیا، اگر مرنے والا چاہے تو یہ وصیت اپنے منہ بولے بھائیوں کے لیے بھی کرسکتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4580   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4580  
4580. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ﴿وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ﴾ میں مَوَالِيَ سے مراد وارث ہیں۔ اور ﴿وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ﴾ سے مراد یہ ہے کہ جب مہاجرین، ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آئے تو اس بھائی چارے کی وجہ سے جو نبی ﷺ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان کرایا تھا، قرابت داروں کے علاوہ انصار کے وارث مہاجرین بھی ہوتے تھے۔ پھر جب یہ آیت ﴿وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ﴾ نازل ہوئی تو یہ دستور منسوخ ہو گیا۔ پھر بیان کیا کہ ﴿وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ﴾ سے مراد وہ لوگ ہیں جن سے مدد و معاونت اور خیرخواہی کا معاہدہ ہوا ہو۔ اب ان کے لیے میراث کا حکم تو منسوخ ہو گیا، البتہ ان کی خاطر وصیت کی جا سکتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4580]
حدیث حاشیہ:

حضرت ابن عباس ؓ نے ﴿وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ﴾ سے مراد صرف وہی لوگ لیے ہیں جن سے رسول اللہ ﷺ نے مؤاخات کروائی تھی جبکہ ان کے علاوہ دیگر مفسرین نے اسے عام قراردیا ہے چنانچہ علامہ طبری کی ایک روایت میں ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کا حلیف بن جاتا اگرچہ ان دونوں کے درمیان کوئی خونی رشتہ نہیں ہوتا تھا تاہم اس حلف و معاہدے کی بدولت دونوں ایک دوسرے کے وارث بن جاتے تھے۔
(تفسیر الطبري، تفسیر سورہ النساء، تحت آیت: 33)

عقد حلف یہ ہے کہ کوئی مجہول النسب دوسرے سے کہے کہ تو میرا مولی ہے میں مر جاؤں توتو میرا وارث ہوگا اور میں کوئی خیانت کروں تو تجھے میری طرف سے دیت ادا کرنی ہوگی۔
اور دوسرا بھی اسی طرح کہے تو دونوں ایک دوسرے کے وارث بن جائیں گے اور دونوں پر ایک دوسرے کی دیت ادا کرنا لازم ہو گی۔
عقد حلف ابتدائے اسلام میں تھا اب منسوخ ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4580