سنن دارمي
من كتاب الصللاة -- نماز کے مسائل
207. باب في الْوِتْرِ:
وتر کا بیان
حدیث نمبر: 1617
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي سُهَيْلٍ نَافِعِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَنَّ أَعْرَابِيًّا جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَائِرَ الرَّأْسِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَاذَا فَرَضَ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ الصَّلَاةِ؟ قَالَ: "الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ، وَالصِّيَامَ"، فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَرَائِعِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ: وَالَّذِي أَكْرَمَكَ لَا أَتَطَوَّعُ شَيْئًا، وَلَا أَنْقُصُ مِمَّا فَرَضَ اللَّهُ عَلَيَّ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"أَفْلَحَ وَأَبِيهِ إِنْ صَدَقَ، أَوْ دَخَلَ الْجَنَّةَ وَأَبِيهِ إِنْ صَدَقَ".
سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے، اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ نے میرے اوپر کتنی نمازیں فرض کی ہیں؟ فرمایا: پانچ نمازیں اور روزه (بھی) فرض کیا ہے، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دین کے احکام بتلائے، پس اس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو عزت بخشی میں ان فرائض میں کوئی کمی و بیشی نہیں کروں گا، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے باپ کی قسم اگر اس نے سچے دل سے یہ کہا ہے تو کامیاب ہو گیا۔ ... یا یہ فرمایا: قسم اس کے باپ کی اگر سچ کہا ہے تو جنت میں داخل ہو گیا۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1619]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 46 وغيرها]، [مسلم: الايمان 11]، [أبوداؤد 391]، [نسائي 457]، [ابن حبان 1724، 3262]، [ابن خزيمه 306، وغيرهم]

وضاحت: (تشریح حدیث 1616)
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ارکانِ اسلام میں صرف فرائض پر عمل کیا اور ان میں کوئی کمی و زیادتی نہ کی تو کامرانی سے ہمکنار ہو کر جنّت میں داخل ہو گیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے باپ کی قسم کھا کر تاکیداً ایسا فرمایا حالانکہ باپ کی قسم کھانے سے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ صحیحین بخاری و مسلم میں صرف «أفلح أن صدق» اور «دخل الجنة أن صدق» آیا ہے، یہ قسم اصح الروایات میں نہیں، نیز یہ کہ ہو سکتا ہے یہ قسم ممانعت سے پہلے کی ہو، بہرحال اللہ کے سوا باپ یا کسی کی بھی قسم کھانا حرام ہے، امام خطابی رحمہ اللہ نے کہا: یہ قسم نہیں بلکہ عربی کا محاورہ ہے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاورةً ایسا کہا تھا۔
(واللہ اعلم)