سنن دارمي
من كتاب الزكاة -- زکوٰۃ کے مسائل
15. باب لِمَنْ تَحِلُّ لَهُ الصَّدَقَةُ:
صدقہ لینا کس کے لئے درست ہے اس کا بیان
حدیث نمبر: 1679
أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِنَحْوِهِ.
اس دوسری سند سے بھی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1681]»
اس کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ نیز دیکھئے: [المعرفة و التاريخ للفسوي 98/3]

وضاحت: (تشریح حدیث 1678)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ غنی اور طاقت ور آدمی کے لئے مانگنا جائز نہیں، اور دوسری حدیث کے مطابق غنی وہ ہے جس کے پاس پچاس درہم ہو، بعض علماء نے کہا: جس کے پاس صبح شام ایک دن کے کھانے کی استطاعت ہو، بعض علماء نے کہا کہ جو صاحبِ نصاب ہو وہ غنی ہے، بہرحال مانگنا بری چیز ہے اس سے بچنا چاہیے۔
محنت اور ہاتھ کی کمائی سے بہتر کوئی کمائی نہیں ہے، اور پیسے ہونے کے باوجود جو شخص اپنے لئے دستِ سوال دراز کرے وہ قیامت کے دن چھلے ہوئے زخمی چہرے کے ساتھ اٹھایا جائے گا، ایک حدیث ہے کہ اس کے چہرے پر گوشت ہی نہ ہوگا۔