صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
12. بَابُ: {فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ} :
باب: آیت کی تفسیر ”تیرے رب کی قسم! یہ لوگ ہرگز ایماندار نہ ہوں گے جب تک یہ لوگ اس جھگڑے میں جو ان کے آپس میں ہوں، تجھ کو اپنا حکم نہ بنا لیں، پھر تیرے فیصلے کو برضا و رغبت تسلیم نہ کر لیں“۔
حدیث نمبر: 4585
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ: خَاصَمَ الزُّبَيْرُ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ فِي شَرِيجٍ مِنْ الْحَرَّةِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اسْقِ يَا زُبَيْرُ، ثُمَّ أَرْسِلِ الْمَاءَ إِلَى جَارِكَ"، فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ، فَتَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ:" اسْقِ يَا زُبَيْرُ، ثُمَّ احْبِسْ الْمَاءَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْجَدْرِ، ثُمَّ أَرْسِلِ الْمَاءَ إِلَى جَارِكَ"، وَاسْتَوْعَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَيْرِ حَقَّهُ فِي صَرِيحِ الْحُكْمِ حِينَ أَحْفَظَهُ الْأَنْصَارِيُّ، كَانَ أَشَارَ عَلَيْهِمَا بِأَمْرٍ لَهُمَا فِيهِ سَعَةٌ، قَالَ الزُّبَيْرُ: فَمَا أَحْسِبُ هَذِهِ الْآيَاتِ إِلَّا نَزَلَتْ فِي ذَلِكَ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ سورة النساء آية 65.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے اور ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ زبیر رضی اللہ عنہ کا ایک انصاری صحابی سے مقام حرہ کی ایک نالی کے بارے میں جھگڑا ہو گیا (کہ اس سے کون اپنے باغ کو پہلے سینچنے کا حق رکھتا ہے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زبیر! پہلے تم اپنے باغ سینچ لو پھر اپنے پڑوسی کو جلد پانی دے دینا۔ اس پر اس انصاری صحابی نے کہا: یا رسول اللہ! اس لیے کہ یہ آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں؟ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زبیر! اپنے باغ کو سینچو اور پانی اس وقت تک روکے رکھو کہ منڈیر تک بھر جائے، پھر اپنے پڑوسی کے لیے اسے چھوڑو۔ (پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری کے ساتھ اپنے فیصلے میں رعایت رکھی تھی) لیکن اس مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ کو صاف طور پر ان کا پورا حق دے دیا کیونکہ انصاری نے ایسی بات کہی تھی۔ جس سے آپ کا غصہ ہونا قدرتی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پہلے فیصلہ میں دونوں کے لیے رعایت رکھی تھی۔ زبیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے، یہ آیات اسی سلسلے میں نازل ہوئی تھیں «فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم‏» تیرے پروردگار کی قسم ہے کہ یہ لوگ ایماندار نہ ہوں گے جب تک یہ اس جھگڑے میں جو ان کے آپس میں ہوں آپ کو حکم نہ بنا لیں اور آپ کے فیصلے کو کھلے دل کے ساتھ برضا و رغبت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2481  
´وادیوں سے آنے والے پانی کا استعمال کیسے کیا جائے۔`
ثعلبہ بن ابی مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی مہزور کے نالہ کے سلسلہ میں یہ فیصلہ کیا کہ اوپری حصہ نچلے حصہ سے برتر ہے، جس کا کھیت اونچائی پر ہو، پہلے سینچ لے، اور ٹخنوں تک پانی اپنے کھیت میں بھر لے، پھر پانی کو اس شخص کے لیے چھوڑ دے جس کا کھیت نشیب (ترائی) میں ہو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الرهون/حدیث: 2481]
اردو حاشہ:
فائده:
اوپر والے سے مراد وہ شخص ہے جس کی زمین میں سلابی پانی پہلے پہنچتا ہے۔
اورنیچے والے سے مراد وہ شخص ہے جس کی زمین میں پانی بعد میں پہنچتا ہے۔
کھیت مین جب اتنا پانی جمع ہوجائے کہ آدمی کے ٹخنے تک پہنچ جائے تو اسے چاہیے کہ دوسرے کواپنا کھیت سینچنے دے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2481   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4585  
4585. حضرت عروہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت زبیر ؓ اور ایک انصاری کے درمیان حرہ میں واقع ایک برساتی نالے کے متعلق جھگڑا ہوا تو نبی ﷺ نے حضرت زبیر ؓ سے فرمایا: تم (اپنے درختوں کو) پانی پلا لو، پھر اپنے ہمسائے (کے باغ) کی طرف پانی جانے دو۔ یہ سن کر انصاری کہنے لگا: اللہ کے رسول! اس لیے کہ وہ آپ کی پھوپھی کا بیٹا ہے؟ یہ بات سن کر رسول اللہ ﷺ کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا۔ پھر آپ نے فرمایا: اے زبیر! تم (اپنے باغ کو) پانی پلاؤ اور جب تک پانی منڈیروں تک نہ پہنچ جائے اپنے ہمسائے کے لیے پانی نہ چھوڑو۔ جب انصاری نے آپ کو غصہ دلایا تو نبی ﷺ نے اپنے صریح حکم سے حضرت زبیر ؓ کو ان کا پورا پورا حق دلایا جبکہ آپ کے پہلے حکم میں وسعت اور دونوں کی رعایت ملحوظ تھی۔ حضرت زبیر ؓ کہتے ہیں: میرے خیال کے مطابق یہ آیت کریمہ اسی مقدمہ میں نازل ہوئی: (اے محمد ﷺ) تیرے رب کی قسم! یہ لوگ اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4585]
حدیث حاشیہ:
اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنی ذات کی قسم کھا کر ارشاد فرماتا ہے کہ ان لوگوں کا ایمان کبھی پورا ہونے والا نہیں جب تک یہ اپنے آپس کے جھگڑوں میں تجھ کو حکم نہ بنالیں پھر تیرے فیصلے کو سن کر خوشی خوشی تسلیم نہ کر لیں۔
مومن کی یہی نشانی ہے کہ جس مسئلہ میں اگر صحیح حدیث مل جائے بس خوشی خوشی اس پر عمل شروع کردے۔
اگر تمام جہان کے مولوی مجتہد مل کر اسکے خلاف بیان کریں تو کرتے رہیں، ذرا بھی دل میں یہ خیال نہ لائے کہ ان مجتہد وں کا مذہب جو ہم چھوڑ تے ہیں اچھی بات نہیں ہے، بلکہ دل میں بہت خوشی اور سرور پیدا ہو کہ حق تعالیٰ نے حدیث شریف کی پیروی کی توفیق دی اور کیدانی اور قہستانی کے پھندے سے نجات دلوائی۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4585   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4585  
4585. حضرت عروہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت زبیر ؓ اور ایک انصاری کے درمیان حرہ میں واقع ایک برساتی نالے کے متعلق جھگڑا ہوا تو نبی ﷺ نے حضرت زبیر ؓ سے فرمایا: تم (اپنے درختوں کو) پانی پلا لو، پھر اپنے ہمسائے (کے باغ) کی طرف پانی جانے دو۔ یہ سن کر انصاری کہنے لگا: اللہ کے رسول! اس لیے کہ وہ آپ کی پھوپھی کا بیٹا ہے؟ یہ بات سن کر رسول اللہ ﷺ کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا۔ پھر آپ نے فرمایا: اے زبیر! تم (اپنے باغ کو) پانی پلاؤ اور جب تک پانی منڈیروں تک نہ پہنچ جائے اپنے ہمسائے کے لیے پانی نہ چھوڑو۔ جب انصاری نے آپ کو غصہ دلایا تو نبی ﷺ نے اپنے صریح حکم سے حضرت زبیر ؓ کو ان کا پورا پورا حق دلایا جبکہ آپ کے پہلے حکم میں وسعت اور دونوں کی رعایت ملحوظ تھی۔ حضرت زبیر ؓ کہتے ہیں: میرے خیال کے مطابق یہ آیت کریمہ اسی مقدمہ میں نازل ہوئی: (اے محمد ﷺ) تیرے رب کی قسم! یہ لوگ اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4585]
حدیث حاشیہ:

مذکورہ قانون صرف منافق کے لیے نہیں بلکہ ساری اُمت کے لیے اور قیامت تک کے لیے ہے۔
قانون یہ ہے کہ جو مسلمان رسول اللہ ﷺ کے ارشاد، حکم یا فیصلے کو دل وجان سے قبول کرلینے اور اس کے آگے سرتسلیم خم کردینے پرآمادہ نہیں ہوتا وہ سرے سے مسلمان ہی نہیں ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے ارشادات اور فیصلے کتب حدیث میں موجود ہیں، اب جوشخص ان کے مقابلے میں کسی اور حاکم، عالم، پیر یا امام کی بات کو ترجیح دیتا ہے وہ بھی اسی وعید میں داخل ہوگا۔
یہ آیت کریمہ اُمت کے تمام اختلافات اور جھگڑوں میں فیصلہ کرنے میں ہمارے لیے رہنما اور کسوٹی ہے۔
مومن کی یہی نشانی ہے کہ جس مسئلےمیں اسے صحیح حدیث مل جائے وہ خوشی خوشی اس پر عمل شروع کردے۔

بظاہر آیت کریمہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص دوسرے کسی قانون کو باطل سمجھنے کے باوجود اس کی طرف رجوع کرے گا وہ مسلمان نہیں یا اگر کوئی شرعی فیصلے کو برحق سمجھنے کے باوجود دل میں تنگی محسوس کرتا ہے تو وہ بھی مسلمان نہیں، حالانکہ تنگی پر انسان کا اختیار نہیں ہوتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ تحکیم، عدم حرج اور تسلیم کے تین درجے حسب ذیل ہیں:
۔
اعتقاد:
۔
اس کا نام ایمان ہے، اگریہ نہیں تو عنداللہ کفر ہے اور اس کا مرتکب بھی کافر ہے۔
۔
زبان:
اس کا نام اقرار ہے۔
اگر اقرار نہیں تو عندالناس کافر ہے۔
۔
عمل:
۔
اس کا نام تقویٰ اور اصلاح ہےاگریہ نہیں تو فسق پایا جائے گا۔
آیت کریمہ میں چونکہ منافقین کا ذکر ہے، اس لیے اس سے مراد پہلا مرتبہ ہے، یعنی اس کے متعلق دل میں ایمان اور اس کی حقانیت کی تصدیق نہ ہو۔
اس سے انسان دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔

واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زبیر ؓ کو جو پہلا حکم دیا تھا وہ صلح اور آشتی پر مبنی تھا اور دوسرا حکم جس میں حضرت زبیر ؓ کو پورا پورا حق دیا گیا وہ عدل وانصاف کے تقاضے کے مطابق تھا۔
دراصل انصاری نے آپ پر سنگین الزام عائد کیا کہ رسول اللہ ﷺ مروت و رواداری میں کبھی عدل نہیں کرسکتے، اس بنا پر آیت کریمہ میں سخت وعید ذکر کی گئی ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ وہ انصاری مخلص ہو لیکن اسے اس بات کا علم نہ ہو کہ ان پر ہر چھوٹے بڑے معاملے میں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت واجب ہے، اس لیے آیت کریمہ میں تنبیہ کردی گئی ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4585