صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
13. بَابُ: {فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ} :
باب: آیت «فأولئك مع الذين أنعم الله عليهم من النبيين» کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 4586
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَوْشَبٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَا مِنْ نَبِيٍّ يَمْرَضُ إِلَّا خُيِّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ"، وَكَانَ فِي شَكْوَاهُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ، أَخَذَتْهُ بُحَّةٌ شَدِيدَةٌ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ:" مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ سورة النساء آية 69، فَعَلِمْتُ أَنَّهُ خُيِّرَ".
ہم سے محمد بن عبداللہ بن حوشب نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو نبی مرض الموت میں بیمار ہوتا ہے تو اسے دنیا اور آخرت کا اختیار دیا جاتا ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض الموت میں جب آواز گلے میں پھنسنے لگی تو میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے «مع الذين أنعم الله عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين‏» ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ۔ اس لیے میں سمجھ گئی کہ آپ کو بھی اختیار دیا گیا ہے (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «اللهم بالرفيق الاعلي» کہہ کر آخرت کو پسند فرمایا)۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1620  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جو نبی بھی بیمار ہوا اسے دنیا یا آخرت میں رہنے کا اختیار دیا گیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مرض میں مبتلا ہوئے جس میں آپ کا انتقال ہوا، تو آپ کو ہچکی آنے لگی، میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہے تھے: «مع الذين أنعم الله عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين» ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے احسان کیا، انبیاء، صدیقین شہداء، اور صالحین میں سے تو اس وقت میں نے جان لیا کہ آپ کو اختیار دیا گیا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1620]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نبیوں علیہ السلام کو دنیا میں رہنے یا اللہ کے پاس جانے کا اختیار دیا جانا انکے مقام ومرتبہ اور شرف منزلت کے اظہار کے لئے ہے۔
لیکن انبیائے کرام رضا بالقضا کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہوتے ہیں۔
اس لئے وہ دنیا کے مقابلے میں آخرت ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔
اسی طرح ان کی وفات بھی اسی وقت پرہوتی ہے۔
جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے مقرر کر رکھا ہوتا ہے۔
اس مقررہ وقت میں تقدیم وتاخیر نہیں ہوتی۔

(2)
اس بیماری سے مراد مرض وفات ہے۔
ہر بیماری کے موقع پر اختیار دیا جانا مراد نہیں۔

(3)
اس موقع پر نبی اکرمﷺ جو آیت مبارکہ تلاوت فرمائی اس سے ارشاد مبارک (الحقني بالرفيق الاعليٰ)
 کی وضاحت ہوگئی۔

(4)
بندوں کے یہ چار گروہ انعام یافتہ ہیں۔
ان میں سے نبوت کا منصب تو محض اللہ کی مشیت کےمطابق اس کے منتخب بندوں کو تفویض ہوا اس میں بندے کی محنت اور کوشش کا کوئی دخل نہیں۔
باقی تینوں درجات (صدیق، شہید، صالح)
ایسے ہیں کہ بندہ کوشش کرے تو اللہ کی توفیق سے انھیں حاصل کرسکتا ہے۔
مومن کو کوشش کرنی چاہیے کہ ان میں سے کوئی درجہ اسے حاصل ہوجائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1620   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4586  
4586. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ہر نبی کو اس کی بیماری میں اختیار دیا جاتا ہے کہ چاہے تو دنیا میں رہے اور چاہے تو آخرت کو پسند کرے۔ اور آپ ﷺ کو مرض الموت میں جب سخت دھچکا لگا تو میں نے سنا، آپ فرما رہے تھے: ان لوگوں کی رفاقت جن پر اللہ تعالٰی نے انعام کیا، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صلحاء کی رفاقت۔ میں اس وقت سمجھ گئی کہ اب آپ کو بھی اختیار دیا گیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4586]
حدیث حاشیہ:

ایک دوسری روایت میں اس کی مزید وضاحت ہے۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:
رسول اللہ ﷺ تندرستی کی حالت میں فرمایا کرتے تھے:
" کسی نبی کو اس وقت تک موت نہیں آتی جب تک اسے جنت میں اس کا ٹھکانہ نہ دکھایا جائے، پھر اسے دنیا میں رہنے یا آخرت کی طرف سدھارنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔
" آپ جب بیمار ہوئے اورآخر وقت آیا تو آپ کا سرمبارک میری ران پر رکھا ہوا تھا آپ بے ہوش ہوگئے۔
جب ہوش آیا تو چھت کی طرف دیکھنے لگے اور فرمایا:
"اے اللہ!میں رفیق اعلیٰ کی رفاقت چاہتا ہوں۔
" میں نے (دل میں)
کہا:
اب رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس نہیں رہیں گے۔
مجھے یقین ہوگیا کہ یہ وہی حدیث ہے جو آپ تندرستی کی حالت میں بیان کیاکرتے تھے۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4437)

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:
ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی اللہ کے رسولﷺ!مجھے آپ سے بہت محبت ہے اور آپ مجھے میرے اہل وعیال سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔
میں گھر میں ہوتا ہوں تو آپ ہی کو یاد کرتا رہتا ہوں۔
جب تک آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ کو دیکھ نہ لوں مجھے صبر نہیں آتا۔
جب مجھے آپ کی موت یاد آتی ہے تو پریشان ہوجاتا ہوں کہ آپ تو فردوس اعلیٰ میں انبیاء کرام ؑ کے ہمراہ ہوں گے اور میں جنت میں آپ کو نہیں دیکھ سکوں گا، مجھے اس کیفیت سے بہت ڈر لگتاہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اسے کوئی جواب نہ دیا حتی کہ حضرت جبریل ؑ مذکورہ آیت لے کر نازل ہوئے۔
(المعجم الأوسط للطبراني: 296/1۔
رقم: 480)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4586