صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
18. بَابُ لاَ يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ:
باب: آیت کی تفسیر ”ایمان والوں میں سے (بلا عذر گھروں میں) بیٹھ رہنے والے اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کرنے والے برابر نہیں ہو سکتے“۔
حدیث نمبر: 4593
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ لا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ سورة النساء آية 95، دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدًا فَكَتَبَهَا، فَجَاءَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ فَشَكَا ضَرَارَتَهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ سورة النساء آية 95".
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب آیت «لا يستوي القاعدون من المؤمنين‏» نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو کتابت کے لیے بلایا اور انہوں نے وہ آیت لکھ دی۔ پھر عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور اپنے نابینا ہونے کا عذر پیش کیا، تو اللہ تعالیٰ نے «غير أولي الضرر‏» کے الفاظ اور نازل کئے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1670  
´معذور لوگوں کے لیے جہاد نہ کرنے کی رخصت کا بیان۔`
براء بن عازب رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس «شانہ» (کی ہڈی) یا تختی لاؤ، پھر آپ نے لکھوایا ۱؎: «لا يستوي القاعدون من المؤمنين» یعنی جہاد سے بیٹھے رہنے والے مومن (مجاہدین کے) برابر نہیں ہو سکتے ہیں نابینا صحابی، عمرو ابن ام مکتوم رضی الله عنہ آپ کے پیچھے تھے، انہوں نے پوچھا: کیا میرے لیے اجازت ہے؟ چنانچہ (آیت کا) یہ ٹکڑا نازل ہوا: «غير أول الضرر» ، (معذورین کے)۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1670]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہواکہ تختیوں اور ذبح شدہ جانوروں کی ہڈیوں پرگرانی آیات وسور کا لکھنا جائز ہے اور مذبوح جانوروں کی ہڈیوں سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1670   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4593  
4593. حضرت براء ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید بن ثابت ؓ کو کتابت کے لیے بلایا اور انہوں نے یہ آیت لکھ دی۔ پھر حضرت عبداللہ بن ام مکتوم ؓ آئے اور اپنے نابینا ہونے کا عذر پیش کیا تو اللہ تعالٰی نے ﴿غَيْرُ أُولِي الضَّرَر﴾ کے الفاظ نازل فرما دیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4593]
حدیث حاشیہ:
جس سے معذورین کا استثناء ہو گیا۔
آیت میں مجاہدین اور بیٹھ رہنے والوں کا ذکر تھا کہ وہ برابر نہیں ہوسکتے مگر جو لوگ معذور ہیں وہ قابل معافی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4593   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4593  
4593. حضرت براء ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿لَّا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید بن ثابت ؓ کو کتابت کے لیے بلایا اور انہوں نے یہ آیت لکھ دی۔ پھر حضرت عبداللہ بن ام مکتوم ؓ آئے اور اپنے نابینا ہونے کا عذر پیش کیا تو اللہ تعالٰی نے ﴿غَيْرُ أُولِي الضَّرَر﴾ کے الفاظ نازل فرما دیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4593]
حدیث حاشیہ:

پہلے آیت میں یہ ذکر تھا کہ جہاد کرنے والے اور گھروں میں بیٹھ رہنے والے برابر نہیں ہوسکتے، اس میں معذور لوگوں کی وضاحت نہ تھی، پھر جب معذور لوگوں نے عذر پیش کیا تو مزید الفاظ نازل ہوئے جن سے معذور لوگوں کو تسلی ہوگئی کہ ان کا مرتبہ مجاہدین سے کم نہیں ہے جیساکہ ایک دوسری حدیث میں ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"مدینے میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ جب تم کوئی سفر کرتے ہو یا کوئی وادی طے کرتے ہو تو وہ تمہارے ساتھ ہوتے ہیں۔
"صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کی:
باوجود اس کے کہ وہ مدینے میں ہیں؟آپ نے فرمایا:
"ہاں،لیکن یہ وہ لوگ ہیں جنھیں عذر نےروک لیا ہے۔
" گویا اللہ تعالیٰ نے حضرت عبداللہ بن ام مکتوم ؓ کے عذر کو قبول فرما لیا لیکن اس رخصت کے باوجود آپ کا جذبہ جہاد اتنا تھا کہ نابینا ہونے کے باوجود آپ مشقت اٹھا کر بھی کئی غزوات میں شریک ہوئے۔

پہلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن ام مکتوم ؓ اس وقت آئے جب رسول اللہ ﷺ آیت لکھوا رہے تھے جبکہ آخری حدیث میں ہے کہ وہ اس وقت آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، ان میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ ابن مکتوم ؓ آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے، جب آپ نے کاتب وحی حضرت زید بن ثابت ؓ کو کتابت کے لیے بلایا تو اس وقت آپ سامنے آگئے اور اپنا عذر پیش کیا کہ میں تو نابیناہوں۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4423)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4593