صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
21. بَابُ: {فَأُولَئِكَ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَعْفُوَ عَنْهُمْ وَكَانَ اللَّهُ عَفُوًّا غَفُورًا} :
باب: آیت کی تفسیر ”تو یہ لوگ ایسے ہیں کہ اللہ انہیں معاف کر دے گا اور اللہ تو بڑا ہی معاف کرنے والا اور بخش دینے والا ہے“۔
حدیث نمبر: 4598
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الْعِشَاءَ، إِذْ قَالَ:" سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ"، ثُمَّ قَالَ قَبْلَ أَنْ يَسْجُدَ:" اللَّهُمَّ نَجِّ عَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ، اللَّهُمَّ نَجِّ سَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، اللَّهُمَّ نَجِّ الْوَلِيدَ بْنَ الْوَلِيدِ، اللَّهُمَّ نَجِّ الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ، اللَّهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ، اللَّهُمَّ اجْعَلْهَا سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز میں (رکوع سے اٹھتے ہوئے) «سمع الله لمن حمده‏"‏‏.‏» کہا اور پھر سجدہ میں جانے سے پہلے یہ دعا کی اے اللہ! عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے۔ اے اللہ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے۔ اے اللہ! ولید بن ولید کو نجات دے۔ اے اللہ کمزور مومنوں کو نجات دے۔ اے اللہ! کفار مضر کو سخت سزا دے۔ اے اللہ انہیں ایسی قحط سالی میں مبتلا کر جیسی یوسف علیہ السلام کے زمانے میں قحط سالی آئی تھی۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1074  
´نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر میں دوسری رکعت سے اپنا سر اٹھایا تو آپ نے دعا کی: اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور مکہ کے کمزور لوگوں کو دشمنوں کے چنگل سے نجات دے، اے اللہ! قبیلہ مضر پر اپنی پکڑ سخت کر دے، اور ان کے اوپر یوسف علیہ السلام (کی قوم) جیسا سا قحط مسلط کر دے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1074]
1074۔ اردو حاشیہ:
➊ الفاظ سے صراحتاً معلوم ہوتا ہے کہ یہ قنوت نازلہ ہے جو آپ ہمیشہ نہیں فرماتے تھے۔
➋ یوسف علیہ السلام کے قحط سے تشبیہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ کئی سال جاری رہا اور ایسا ہی ہوا، ان کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا قبول ہوئی، ان پر قحط سالی آئی اور مضر والے کئی برس تک قحط کی بلا میں گرفتار رہے یہاں تک کہ وہ ہڈیاں، چمڑے اور مردار تک کھانے لگے۔ پھر جب قریش اس قحط سے عاجز آگئے تو ان کا نمائندہ اور سردار ابوسفیان مدینہ منورہ حاضر ہوا اور قحط کے خاتمے کے لیے دعا کی اپیل کی تو نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مشروط طور پر قحط کے خاتمے کی دعا فرما دی اور قحط دور ہو گیا۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الاستسقاء، حدیث: 1007]
➌ صبح کی نماز میں قنوت نازلہ جائز ہے۔
➍ قنوت نازلہ رکوع کے بعد ہو گی۔
➎ کسی کا نام لے کے دعا یا بددعا کرنے سے نماز باطل نہیں ہوتی جیسا کہ احناف کا موقف ہے۔
➏ قنوت نازلہ بلند آواز سے کرنا مستحب ہے۔ صحیح بخاری میں صراحت ہے کہ آپ بلند آواز سے قنوت کراتے تھے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4560] نیز سنن أبي داود کی روایت میں ہے: «يُؤَمِّنُ مَن خَلفَه» آپ کے پیچھے والے آمین کہتے تھے۔ [سنن أبي داود، الوتر، حدیث: 1443]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1074   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1244  
´نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر سے اپنا سر اٹھاتے تو فرماتے: «اللهم أنج الوليد بن الوليد وسلمة بن هشام وعياش بن أبي ربيعة والمستضعفين بمكة اللهم اشدد وطأتك على مضر واجعلها عليهم سنين كسني يوسف» اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور مکہ کے کمزور حال مسلمانوں کو نجات دیدے، اے اللہ! تو اپنی پکڑ قبیلہ مضر پر سخت کر دے، اور یوسف علیہ السلام کے عہد کے قحط کے سالوں کی طرح ان پر بھی قحط مسلط کر دے) ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1244]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
قنوت نازلہ آخری رکعت میں رکوع کے بعد پڑھی جاتی ہے۔

(2)
اس میں امام بلند آواز سے مناسب دعایئں کرتا ہے۔

(3)
قنوت نازلہ میں مظلوم مسلمانوں کا نام لے کر ان کے حق میں اور کافروں کا نام لے کر ان کے خلاف دعا کی جا سکتی ہے۔
دیکھئے: (صحیح البخاري، التفسیر، باب ﴿لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْئٌ﴾ حدیث: 4560 وصحیح المسلم، المساجد، باب استحباب القنوت فی جمیع الصلوات۔
۔
۔
، حدیث: 675)

   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1244   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4598  
4598. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک دفعہ نبی ﷺ نماز عشاء پڑھ رہے تھے کہ آپ نے سمع الله لمن حمده کہا، پھر سجدہ کرنے سے پہلے یوں دعا کی: اے اللہ! عیاش بن ابو ربیعہ کو نجات دے۔ اے اللہ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے۔ اے اللہ! ولید بن ولید کو نجات دے۔ اے اللہ! کمزور مسلمانوں کو نجات دے۔ اے اللہ! قبیلہ مضر کو سخت سزا دے۔ اے اللہ! انہیں ایسی قحط سالی میں مبتلا کر دے جس طرح حضرت یوسف ؑ کے زمانے میں قحط سالی آئی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4598]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ کی دعا کمزور مسلمانوں کے لیے تھی جو مکہ میں پھنسے رہ گئے تھے۔
مضر قبیلہ کے لیے بد دعا اس واسطے کی کہ انہوں نے مسلمانوں کو خاص طور پر سخت نقصان پہنچایا تھا۔
اس سے معلوم ہوا کہ جو کافر مسلمانوں کو ستائیں ان پر قحط اور بیماری کی بد دعا کرنا درست ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4598   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4598  
4598. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک دفعہ نبی ﷺ نماز عشاء پڑھ رہے تھے کہ آپ نے سمع الله لمن حمده کہا، پھر سجدہ کرنے سے پہلے یوں دعا کی: اے اللہ! عیاش بن ابو ربیعہ کو نجات دے۔ اے اللہ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے۔ اے اللہ! ولید بن ولید کو نجات دے۔ اے اللہ! کمزور مسلمانوں کو نجات دے۔ اے اللہ! قبیلہ مضر کو سخت سزا دے۔ اے اللہ! انہیں ایسی قحط سالی میں مبتلا کر دے جس طرح حضرت یوسف ؑ کے زمانے میں قحط سالی آئی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4598]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ ﷺ نے چار ہجری میں ان کمزور اور بے بس مسلمانوں کی رہائی کے لیے دعا فرمائی جو مکہ مکرمہ میں کفار قریش کے ظلم وستم کا شکار تھے اور انھیں ہجرت سے بھی روک دیا گیا تھا۔
ان میں حضرت عیاش بن ابوربیعہ ؓ ابوجہل کے مادری بھائی جبکہ سلمان بن ہشام ؓ اس کے حقیقی بھائی تھے اور ولید بن ولید ؓ حضرت خالد بن ولید ؓ کے بھائی تھے۔

پہلے رسول اللہ ﷺ نے ان کا نام لے کر رہائی اور خلاصی کے لیے دعا کی، پھرتمام کمزور مسلمانوں کے لیے دعا فرمائی۔
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی دعا کی برکت سے انھیں نجات دی اور ہجرت سے بھی مشرف فرمایا۔

قبیلہ مضر کے لوگ ان دنوں کافر تھے اور مسلمانوں کو سخت تکلیف دیتے تھے، اس لیے آپ نے ان کے خلاف بد دعا فرمائی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انھیں قحط میں مبتلا کردیا۔
بعد میں یہ لوگ بھی مسلمان ہوگئے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو کافر مسلمانوں کو تنگ کریں اور انھیں ستائیں تو ان پر قحط سالی اور بیماری کی بد دعا کرنا جائز ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4598