صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
23. بَابُ قَوْلِهِ: {وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ وَمَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ فِي يَتَامَى النِّسَاءِ} :
باب: آیت کی تفسیر ”لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں مسئلہ معلوم کرتے ہیں، آپ کہہ دیں کہ اللہ تمہیں عورتوں کی بابت حکم دیتا ہے اور وہ حکم وہی ہے جو تم کو قرآن مجید میں ان یتیم لڑکیوں کے حق میں سنایا جاتا ہے جن کو تم پورا حق نہیں دیتے“۔
حدیث نمبر: 4600
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ إِلَى قَوْلِهِ وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْكِحُوهُنَّ سورة النساء آية 127، قَالَتْ عَائِشَةُ:" هُوَ الرَّجُلُ تَكُونُ عِنْدَهُ الْيَتِيمَةُ هُوَ وَلِيُّهَا وَوَارِثُهَا، فَأَشْرَكَتْهُ فِي مَالِهِ حَتَّى فِي الْعَذْقِ، فَيَرْغَبُ أَنْ يَنْكِحَهَا، وَيَكْرَهُ أَنْ يُزَوِّجَهَا رَجُلًا، فَيَشْرَكُهُ فِي مَالِهِ بِمَا شَرِكَتْهُ، فَيَعْضُلُهَا، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ".
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ حماد بن اسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے آیت «ويستفتونك في النساء قل الله يفتيكم فيهن‏» لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ مانگتے ہیں۔ آپ کہہ دیں کہ اللہ تمہیں ان کے بارے میں (وہی) فتویٰ دیتا ہے آیت «وترغبون أن تنكحوهن‏» تک۔ انہوں نے بیان کیا کہ یہ آیت ایسے شخص کے بارے میں نازل ہوئی کہ اگر اس کی پرورش میں کوئی یتیم لڑکی ہو اور وہ اس کا ولی اور وارث بھی ہو اور لڑکی اس کے مال میں بھی حصہ دار ہو۔ یہاں تک کہ کھجور کے درخت میں بھی۔ اب وہ شخص خود اس لڑکی سے نکاح کرنا چاہے، کیونکہ اسے یہ پسند نہیں کہ کسی دوسرے سے اس کا نکاح کر دے کہ وہ اس کے اس مال میں حصہ دار بن جائے، جس میں لڑکی حصہ دار تھی، اس وجہ سے اس لڑکی کا کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ ہونے دے تو ایسے شخص کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2068  
´ان عورتوں کا بیان جنہیں بیک وقت نکاح میں رکھنا جائز نہیں۔`
عروہ بن زبیر نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اللہ تعالیٰ کے فرمان: «وإن خفتم ألا تقسطوا في اليتامى فانكحواء ما طاب لكم من النساء سورة النساء» ۱؎ کے بارے میں دریافت کیا تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بھانجے! اس سے وہ یتیم لڑکی مراد ہے، جو اپنے ایسے ولی کی پرورش میں ہو جس کے مال میں وہ شریک ہو اور اس کی خوبصورتی اور اس کا مال اسے بھلا لگتا ہو اس کی وجہ سے وہ اس سے بغیر مناسب مہر ادا کئے نکاح کرنا چاہتا ہو (یعنی جتنا مہر اس کو اور کوئی دیتا اتنا بھی نہ دے رہا ہو) چنانچہ انہیں ان سے نکاح کرنے سے روک دیا گیا، اگ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2068]
فوائد ومسائل:
1: حدیث کا باب سے تعلق یہ ہے کہ اگر انسان اپنی زیر تولیت کسی یتیم بچی سے شرعی عدل وانصاف کے معیار پر پورا نہ اتر سکتا ہو تو اس سے نکاح نہ کرے خواہ پہلا ہو یا کسی دوسری بیوی کے ہوتے ہوئے ہو۔
اس میں تو اور بھی اندیشہ ہے کہ یتیم بچی ہونے کی وجہ سے اسے گھر کی لونڈی اور خادمہ ہی بنا لیا جائے۔

2: فہم قرآن کے لئے شان نزول کی ایک خاص اہمیت ہے بشرطیکہ صحیح سند سے ثابت ہو۔
اسی طرح ہر آیت کے لئےشان نزول تلاش کرنا بھی تکلف بارد ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2068   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4600  
4600. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے درج ذیل آیت: ﴿وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ ۖ قُلِ اللَّـهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ۔۔۔ وَتَرْغَبُونَ أَن تَنكِحُوهُنَّ﴾ کی تفسیر میں فرمایا: کسی آدمی کے پاس کوئی یتیم بچی ہوتی، وہ اس کا متولی بھی ہوتا اور وارث بھی۔ وہ لڑکی اس کو اپنے مال حتی کہ کھجور کے درخت میں بھی شریک کر لیتی۔ وہ مال کی وجہ سے اس کے ساتھ نکاح کرنے میں رغبت رکھتا اور کسی دوسرے سے اس کے نکاح کو ناپسند کرتا، مبادا وہ یتیم لڑکی کے شریک ہونے کے باعث اس کے مال میں شریک ہو جائے گا، اس لیے وہ اس لڑکی کو کسی دوسرے سے نکاح کرنے میں رکاوٹ کھڑی کر دیتا۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4600]
حدیث حاشیہ:
وہ شخص خود بھی واجبی مہر پر اس لڑکی سے نکاح نہ کرے بلکہ مہر کم دینا چاہے تو ایسے نکاح سے اللہ نے منع فرمایا اور یہ حکم دیا کہ اگر تم پورے پورے مہر پر اس سے نکاح کرنا نہ چاہو تو دوسرے شخص سے اسے نکاح کرنے سے منع نہ کرو۔
کہتے ہیں کہ حضرت جابر ؓ کی ایک چچیری بہن تھی، بد صورت۔
حضرت جابر ؓ خود اس سے نکاح کرنا نہیں چاہتے تھے اور مال اسباب کے خیال سے یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ کوئی دوسرا شخص اس سے نکاح کرے کیونکہ وہ اس کے مال کا دعویٰ کرے گا۔
اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔
آیت سے صاف ظاہر ہے کہ صنف نازک کا کسی بھی قسم کا نقصان شریعت میں سخت نا پسند ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4600   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4600  
4600. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے درج ذیل آیت: ﴿وَيَسْتَفْتُونَكَ فِي النِّسَاءِ ۖ قُلِ اللَّـهُ يُفْتِيكُمْ فِيهِنَّ۔۔۔ وَتَرْغَبُونَ أَن تَنكِحُوهُنَّ﴾ کی تفسیر میں فرمایا: کسی آدمی کے پاس کوئی یتیم بچی ہوتی، وہ اس کا متولی بھی ہوتا اور وارث بھی۔ وہ لڑکی اس کو اپنے مال حتی کہ کھجور کے درخت میں بھی شریک کر لیتی۔ وہ مال کی وجہ سے اس کے ساتھ نکاح کرنے میں رغبت رکھتا اور کسی دوسرے سے اس کے نکاح کو ناپسند کرتا، مبادا وہ یتیم لڑکی کے شریک ہونے کے باعث اس کے مال میں شریک ہو جائے گا، اس لیے وہ اس لڑکی کو کسی دوسرے سے نکاح کرنے میں رکاوٹ کھڑی کر دیتا۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4600]
حدیث حاشیہ:

حافظ ابن حجر ؒ نے ابن ابی حاتم کے حوالے سے اس آیت کا شان نزول ذکر کیا ہے کہ حضرت جابر ؓ کی چچا زاد بدصورت تھی اور وہ اپنے والد کی میراث پانے کی وجہ سے مال دار بھی تھی۔
حضرت جابر ؓ کے ہاں وہ زیر کفالت بھی تھی۔
بد صورت ہونے کی وجہ سے حضرت جابر ؓ اس سے نکاح کرنے میں کوئی رغبت نہیں ر کھتے تھے لیکن کسی سے نکاح کردینے میں بھی رضا مند نہ تھے کیونکہ اس طرح اس کا مال اس کے شوہر کو مل جاتا۔
اس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔
(الأنفال: 60/8)

عربی زبان میں "رغب" کا لفظ صلہ کے اعتبار سے دو معنوں میں استعمال ہوتاہے:
اگر اس کے بعد في ہو تو اس کے معنی ہیں:
رغبت کرنا اور شوق رکھنا اور اگر اس کے بعد عن آ جائے تو یہ رو گردانی اورنفرت کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
آیت کریمہ میں دونوں معنوں کے گنجائش کے پیش نظر اس کاصلہ حذف کر دیا گیا ہے۔
اس میں رغبت کرنا اور نفرت کرنا دونوں معنی مقصود ہیں کیونکہ دورجاہلیت میں یتیم لڑکیوں کے ساتھ دوقسم کا ظلم روا رکھا جاتا تھا:
اگر وہ مال دار صاحب جمال ہوتی تو خود سرپرست اس کے ساتھ نکاح کرنے میں رغبت رکھتا اورنکاح کرلیتا لیکن یتیم ہونے کی وجہ سے حق مہر دینے میں بخل اور بے انصافی کی جاتی اور گروہ مال دار ہونے کے ساتھ ساتھ بدصورت ہوتی تو اس کے ساتھ نکاح کرنے سے نفرت کی جاتی اورآگے اس کا نکاح کردینے میں بھی کوئی دلچسپی نہ رکھی جاتی تاکہ اس کا مال ہاتھ سے نہ نکل جائے۔
اس آیت کریمہ سے دونوں قسم کے ظلم وستم کا سد باب کیا گیا ہے اورقرآن کریم کا یہ اعجاز ہے کہ اس میں نفرت اور دلچسپی دونوں معنوں کی گنجائش رکھی گئی ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4600