صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
26. بَابُ قَوْلِهِ: {إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ} إِلَى قَوْلِهِ: {وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ} :
باب: آیت کی تفسیر ”یقیناً ہم نے آپ کی طرف وحی بھیجی ایسی ہی وحی جیسی ہم نے نوح اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف بھیجی تھی اور یونس اور ہارون اور سلیمان پر“ آخر آیت تک۔
حدیث نمبر: 4603
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:"مَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يَقُولَ: أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابووائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی کے لیے مناسب نہیں کہ مجھے یونس بن متی سے بہتر کہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4603  
4603. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: تم میں سے کسی کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ کہے: میں یونس بن متٰی سے بہتر ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4603]
حدیث حاشیہ:
آیت کے مطابق حدیث میں بھی حضرت یونس ؑ کا ذکر ہے یہی وجہ مطابقت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4603   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4603  
4603. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: تم میں سے کسی کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ کہے: میں یونس بن متٰی سے بہتر ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4603]
حدیث حاشیہ:

واقعہ یہ ہے کہ حضرت یونس ؑ نے بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو دریا کے حوالے کردیا اورکچھ مدت مچھلی کے پیٹ میں رہے۔
حضرت یونس ؑ کی اس حالت کو دیکھ کر کوئی شخص یہ دعویٰ نہ کرے کہ میں ان سے بہتر ہوں، اگر کوئی ایسا کہتا ہے تو اس کی بات خلاف واقعہ ہے۔
کیونکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کے مزید قریب ہوئے ہیں، اور ان کے مرتبے میں ذرہ بھر بھی نقص پیدا نہیں ہوا۔

حدیث میں (أَنَا)
سے مراد خودرسول اللہ ﷺ بھی ہوسکتے ہیں اور قائل بھی مراد لیا جاسکتا ہے۔
اگر(أَنَا)
سے مراد قائل ہوتو مفہوم واضح ہے اور اگر اس سے مراد رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی ہے تو یہ آ پ کی تواضع اور کسر نفی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ تو تمام انبیاء ؑ سے افضل ہیں۔

بہرحال رسول اللہ ﷺ نے اس انداز بیان سے حضرت یونس ؓ کے دامن تقدس کو سنبھالا ہے اور لوگوں کی آپ کے متعلق غلط فہمی کو دور کیا ہے، جب تحدیث نعمت کا وقت آئے گا تو اپنے کمالات بیان کیے جائیں گے اب وقتی طور پر کسی نبی کی تنقیص ناقابل برداشت ہے، بہرحال رسول اللہ ﷺ نے امت کو تنبیہ فرمائی ہے کہ مچھلی کے واقعے سے متاثر ہوکر کوئی شخص نبی کی شان میں گستاخی نہ کرے۔
جب رسول اللہ ﷺ نے اس طرح ارشاد فرمایا تو کسی دوسرے کے لیے کیونکر یہ جائز اور مناسب ہوسکتا ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4603