صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
27. بَابُ: {يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلاَلَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ} :
باب: آیت کی تفسیر ”لوگ آپ سے کلالہ کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیں کہ اللہ تمہیں خود کلالہ کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص مر جائے کہ اس کے کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے ایک بہن ہو تو اس سے بہن کو اس کے ترکہ کا آدھا ملے گا اور وہ مرد وارث ہو گا اس (بہن کے کل ترکہ) کا اگر اس بہن کے کوئی اولاد نہ ہو“۔
وَالْكَلَالَةُ: مَنْ لَمْ يَرِثْهُ أَبٌ أَوِ ابْنٌ وَهُوَ مَصْدَرٌ مِنْ تَكَلَّلَهُ النَّسَبُ.
‏‏‏‏ والكلالة من لم يرثه أب أو ابن وهو مصدر من تكلله النسب.
حدیث نمبر: 4605
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، سَمِعْتُ الْبَرَاءَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" آخِرُ سُورَةٍ نَزَلَتْ بَرَاءَةَ، وَآخِرُ آيَةٍ نَزَلَتْ يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ سورة النساء آية 176".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے اور انہوں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ سب سے آخر میں جو سورت نازل ہوئی وہ سورۃ برات ہے اور (احکام میراث کے سلسلے میں) سب سے آخر میں جو آیت نازل ہوئی وہ «يستفتونك قل الله یفتیکم فى الکلالة» ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4605  
4605. حضرت براء ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: قرآن مجید کی جو آخری سورت نازل ہوئی وہ سورہ براءت ہے اور جو آیت میں نازل ہوئی وہ ﴿يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّـهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ﴾ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4605]
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ کہ مسائل میراث سے متعلق یہ آخری آیت ہے۔
حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ میں بیمار تھا۔
رسول کریم ﷺ میرے پاس تشریف لائے، مجھے بیہوش پایا۔
آپ نے وضو کیا اور وضو کا پانی مجھ پر ڈالا تو میں ہوش میں آگیا۔
میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں کلالہ ہوں (جس کے نہ ماں باپ ہوں نہ بیٹا بیٹی)
میرا ترکہ کیونکر تقسیم ہوگا۔
اس وقت یہ آیت اتری (کلالہ کے معنی ہارا ضعیف)
یہاں فرمایا اس کو جس کے وارثوں میں باپ اور بیٹا نہیں کہ اصل وارث وہی تھے تو اس وقت سگے بھائی بہن کو بیٹا بیٹی کا حکم ہے۔
سگے نہ ہوں تو یہی حکم سوتیلوں کا ہے۔
نری ایک بہن کو آدھا اور دو کو دو تہائی اور بھائی بہن ملے ہوں تو مرد کو دوہرا حصہ ملے گا عورت کو اکہرا، جو نر بھائی ہوں تو ان کو فرمایا کہ وہ بہن کے وارث ہوں گے یعنی حصہ معین نہیں وہ عصبہ ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4605   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4605  
4605. حضرت براء ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: قرآن مجید کی جو آخری سورت نازل ہوئی وہ سورہ براءت ہے اور جو آیت میں نازل ہوئی وہ ﴿يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّـهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ﴾ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4605]
حدیث حاشیہ:

ایک حدیث میں ہے کہ آخری آیت جو رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی وہ آیت الربا ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4544)
جبکہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری آیت، آیت کلالہ ہے۔
ان دونوں احادیث میں تطبیق کی یہ صورت ہے:
۔
میراث کے متعلق آخری آیت، آیت کلالہ ہے اور حلت وحرمت کے متعلق آخری آیت آیت الربا ہے۔
۔
مذکورہ دونوں حکم رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے آخری سال میں نازل ہوئے۔
اس لیے دونوں پر آخری ہونے کا لفظ بولا گیا ہے۔
۔
مختلف صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اپنے اپنے علم کے مطابق انھیں آخری آیت قراردیا ہے جیسا کہ حضرت ابی بن کعب ؓ سے منقول ہے کہ وہ آخری آیت:
﴿لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ﴾ کوقراردیتے تھے۔
(فتح الباري: 258/8)

اس آیت کریمہ سے شیعہ حضرات نے یہ استدلال کیا ہے کہ کلالہ وہ ہے جس کی اولاد نہ ہو والد کا ہونا اس کے منافی نہیں ہے لیکن یہ استدلال درست نہیں لفظ وَلد سے من جانب اعلیٰ اور ولادت من جا نب اسفل دونوں مراد ہیں، یعنی ولادت من جانب اعلیٰ سے والد اور ولادت من جانب اسفل سے اولاد کی نفی ہے، نیز عرب کے ہاں کلالہ کے معنی معروف تھے، اس لیے والد کی صراحت کے ساتھ نفی نہیں کی گئی۔
(معالم السنن: 162/4)
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4605