صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
14. بَابُ: {وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور میں ان پر گواہ رہا جب تک میں ان کے درمیان موجود رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا (جب سے) تو ہی ان پر نگراں ہے اور تو تو ہر چیز پر گواہ ہے“۔
حدیث نمبر: 4625
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ مَحْشُورُونَ إِلَى اللَّهِ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا، ثُمَّ قَالَ: كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَاعِلِينَ سورة الأنبياء آية 104 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا وَإِنَّ أَوَّلَ الْخَلَائِقِ يُكْسَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِبْرَاهِيمُ، أَلَا وَإِنَّهُ يُجَاءُ بِرِجَالٍ مِنْ أُمَّتِي، فَيُؤْخَذُ بِهِمْ ذَاتَ الشِّمَالِ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ أُصحَابِي، فَيُقَالُ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ، فَأَقُولُ: كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحُ، وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ سورة المائدة آية 117، فَيُقَالُ:" إِنَّ هَؤُلَاءِ لَمْ يَزَالُوا مُرْتَدِّينَ عَلَى أَعْقَابِهِمْ مُنْذُ فَارَقْتَهُمْ".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم کو مغیرہ بن نعمان نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ اے لوگو! تم اللہ کے پاس جمع کئے جاؤ گے، ننگے پاؤں ننگے جسم اور بغیر ختنہ کے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی «كما بدأنا أول خلق نعيده وعدا علينا إنا كنا فاعلين‏» جس طرح ہم نے اول بار پیدا کرنے کے وقت ابتداء کی تھی، اسی طرح اسے دوبارہ زندہ کر دیں گے، ہمارے ذمہ وعدہ ہے، ہم ضرور اسے کر کے ہی رہیں گے۔ آخر آیت تک۔ پھر فرمایا قیامت کے دن تمام مخلوق میں سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایا جائے گا۔ ہاں اور میری امت کے کچھ لوگوں کو لایا جائے گا اور انہیں جہنم کی بائیں طرف لے جایا جائے گا۔ میں عرض کروں گا، میرے رب! یہ تو میرے امتی ہیں؟ مجھ سے کہا جائے گا، آپ کو نہیں معلوم ہے کہ انہوں نے آپ کے بعد نئی نئی باتیں شریعت میں نکالی تھیں۔ اس وقت میں بھی وہی کہوں گا جو عبد صالح عیسیٰ علیہ السلام نے کہا ہو گا «وكنت عليهم شهيدا ما دمت فيهم فلما توفيتني كنت أنت الرقيب عليهم‏» کہ میں ان کا حال دیکھتا رہا جب تک میں ان کے درمیان رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا (جب سے) تو ہی ان پر نگراں ہے۔ مجھے بتایا جائے گا کہ آپ کی جدائی کے بعد یہ لوگ دین سے پھر گئے تھے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2423  
´حشر و نشر کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن لوگوں کا حشر اس حال میں ہو گا کہ وہ ننگے بدن، ننگے پیر اور ختنہ کے بغیر ہوں گے، پھر آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی: «كما بدأنا أول خلق نعيده وعدا علينا إنا كنا فاعلين» جیسے کہ ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے، یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے، اور ہم اسے ضرور کر کے ہی رہیں گے (الانبیاء: ۱۰۴)، انسانوں میں سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایا جائے گا، اور میری امت کے بعض لوگ دائیں اور بائیں طرف لے جائے جائیں گے تو میں کہوں گا: میرے رب! یہ تو م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2423]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جیسے کہ ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے،
یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے،
اور ہم اسے ضرور کرکے ہی رہیں گے۔
(الانبیاء: 104)
2؎:
ابراہیم علیہ السلام کے کپڑے اللہ کے راستے میں سب سے پہلے اتارے گئے تھے،
اور انہیں آگ میں ڈالا گیا تھا،
اس لیے قیامت کے دن سب سے پہلے انہیں لباس پہنایا جائے گا،
اس حدیث سے معلوم ہواکہ اگر انسان کا ایمان وعمل درست نہ ہوتووہ عذاب سے نہیں بچ سکتا اگرچہ وہ دینی اعتبار سے کسی عظیم ہستی کی صحبت میں ر ہا ہو،
کسی دوسری ہستی پر مغرور ہوکر عمل میں سستی کرنا اس سے بڑھ کر جہالت اور کیا ہوسکتی ہے،
بڑے بڑے مشائخ کے صحبت یافتہ اکثر و بیشتر اس مہلک مرض میں گرفتارہیں،
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہواکہ دین میں نئی باتیں ایجاد کرنا اور اس پر عامل ہونا عظیم خسارے کا باعث ہے۔

3؎:
اگر تو انہیں عذاب دے تو یقینا یہ تیرے بندے ہیں اور اگر انہیں تو بخش دے تو یقینا تو غالب اور حکمت والا ہے۔
(المائدہ: 118)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2423   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4625  
4625. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ایک دن خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: لوگو! تم قیامت کے دن اللہ کے حضور ننگے پاؤں، ننگے بدن اور بے ختنہ جمع کیے جاؤ گے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: "جیسے ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے۔ یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے اور ہم اسے ضرور کر کے رہیں گے۔۔" پھر فرمایا: سن لو! قیامت کے دن ساری خلقت میں سب سے پہلے حضرت ابراہیم ؑ کو لباس پہنایا جائے گا۔ پھر میری امت کے کچھ لوگ حاضر کیے جائیں گے جنہیں فرشتے بائیں جانب لے چلیں گے۔ میں کہوں گا: یا رب! یہ تو میرے ساتھی ہیں۔ جواب ملے گا: آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا کیا نئی باتیں نکال لی تھیں۔ میں اس وقت وہی کچھ کہوں گا جو اللہ کے نیک بندے (حضرت عیسٰی ؑ) نے کہا: "جب تک میں ان لوگوں ان کا حال دیکھتا رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو اس کے بعد تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4625]
حدیث حاشیہ:
قسطلانی نے کہا، مراد وہ گنوار لوگ ہیں جو خالی دنیا کی رغبت سے مسلمان ہوئے تھے اور آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد وہ اسلام سے پھر گئے تھے اور وہ جملہ اہل بدعت مراد ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا بدعات بنی ہوئی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4625   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4625  
4625. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے ایک دن خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: لوگو! تم قیامت کے دن اللہ کے حضور ننگے پاؤں، ننگے بدن اور بے ختنہ جمع کیے جاؤ گے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: "جیسے ہم نے اول دفعہ پیدائش کی تھی اسی طرح دوبارہ کریں گے۔ یہ ہمارے ذمے وعدہ ہے اور ہم اسے ضرور کر کے رہیں گے۔۔" پھر فرمایا: سن لو! قیامت کے دن ساری خلقت میں سب سے پہلے حضرت ابراہیم ؑ کو لباس پہنایا جائے گا۔ پھر میری امت کے کچھ لوگ حاضر کیے جائیں گے جنہیں فرشتے بائیں جانب لے چلیں گے۔ میں کہوں گا: یا رب! یہ تو میرے ساتھی ہیں۔ جواب ملے گا: آپ نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد کیا کیا نئی باتیں نکال لی تھیں۔ میں اس وقت وہی کچھ کہوں گا جو اللہ کے نیک بندے (حضرت عیسٰی ؑ) نے کہا: "جب تک میں ان لوگوں ان کا حال دیکھتا رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو اس کے بعد تو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4625]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث اور آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرات انبیاء ؑ کو غیب کا علم نہیں ہوتا، مگر اتنا ہی جنتا اللہ تعالیٰ انھیں بتا دے نیز انبیاء ؑ کے رخصت ہونے کے بعد انھیں اپنی امت کے اعمال کی خبر نہیں ہوتی۔

رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد فتنوں کا دروازہ کھلا۔
مدینہ مکہ اور بحرین کے علاوہ باقی تمام جگہوں میں شور و غل اٹھا، یمامہ میں مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعوی کر دیا۔
اسود عنسی بھی نبوت کا دعویدار تھا جو رسول اللہ ﷺ کی وفات سے تین دن پہلے جہنم واصل ہوا۔
کچھ لوگ اس کے معتقدہوئے تھے کچھ لوگ دور جاہلیت کی طرف پھر گئے کچھ اسلام پر رہے لیکن بعض واجبات کا انھوں نے انکار کردیا جیسا کہ منکرین زکاۃ سے حضرت ابو بکر ؓ سال بھر جنگ کرتے ہے۔
کچھ مرتدین مارے گئے البتہ اکثر اسلام کی طرف واپس آگئے۔
غالباً انھی لوگوں کے متعلق رسول اللہ ﷺ "أصحابي" کے الفاظ کہیں گے۔

اس حدیث سے حضرت ابراہیم ؑ کی ایک جزوی فضیلت معلوم ہوتی ہے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ سیدالانبیاء حضرت محمد ﷺ سے افضل ہیں کیونکہ جزوی فضیلت کلی فضیلت کو لازم نہیں ہے۔
ہمارے رجحان کے مطابق "أصحابي" سے مراد جملہ اہل بدعت ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا ہی بدعات و رسومات ہیں۔
ان کے متعلق رسول اللہ ﷺ پہلے نرم گوشتہ رکھیں گے۔
پھر جب حقیقت حال سے آگاہ ہوں گے تو ان سے اعلان بے زاری فرمائیں گے۔
أعاذنا اللہ منه أجمعین۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4625