صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
2. بَابُ قَوْلِهِ: {قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ} الآيَةَ:
باب: آیت کی تفسیر ”آپ کہہ دیں کہ اللہ اس پر قادر ہے کہ تمہارے اوپر سے کوئی عذاب بھیج دے“ آخر آیت تک۔
يَلْبِسَكُمْ: يَخْلِطَكُمْ مِنَ الِالْتِبَاسِ، يَلْبِسُوا: يَخْلِطُوا، شِيَعًا: فِرَقًا.
‏‏‏‏ «يلبسكم» کا معنی ملا دے خلط ملط کر دے۔ یہ «الالتباس» سے نکلا ہے۔ «شيعا» یعنی «فرقا» گروہ گروہ فرقے فرقے۔
حدیث نمبر: 4628
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ سورة الأنعام آية 65، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَعُوذُ بِوَجْهِكَ، قَالَ: أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ، قَالَ: أَعُوذُ بِوَجْهِكَ، أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ سورة الأنعام آية 65، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَذَا أَهْوَنُ أَوْ هَذَا أَيْسَرُ".
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت «قل هو القادر على أن يبعث عليكم عذابا من فوقكم‏» نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! میں تیرے منہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ پھر یہ اترا «أو من تحت أرجلكم‏» آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یا اللہ! میں تیرے منہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ پھر یہ اترا «أو يلبسكم شيعا ويذيق بعضكم بأس بعض‏» اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ پہلے عذابوں سے ہلکا یا آسان ہے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3065  
´سورۃ الانعام سے بعض آیات کی تفسیر۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ جب آیت «قل هو القادر على أن يبعث عليكم عذابا من فوقكم أو من تحت أرجلكم» کہہ دیجئیے، وہ (اللہ) قادر ہے اس بات پر کہ وہ تم پر کوئی عذاب بھیج دے اوپر سے یا نیچے سے (الانعام: ۶۵)، نازل ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تیری ذات کی پناہ لیتا ہوں پھر جب آگے «أو يلبسكم شيعا ويذيق بعضكم بأس بعض» یا تم کو مختلف فریق بنا کر ایک کو دوسرے کی طاقت کا مزہ چکھا دے (الانعام: ۶۵) کا ٹکڑا نازل ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دونوں ہی باتیں (اللہ کے لیے) آسان ہیں۔‏‏۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3065]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
کہہ دیجئے،
وہ (اللہ) قادر ہے اس بات پر کہ وہ تم پر کوئی عذاب بھیج دے اوپر سے یا نیچے سے (الانعام: 65)

2؎:
یا تم کو مختلف فریق بنا کر ایک کو دوسرے کی طاقت کا مزہ چکھا دے (الانعام: 65)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3065   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4628  
4628. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی: "کہہ دیجیے: وہ قادر ہے کہ تم پر تمہارے اوپر سے عذاب بھیجے۔" تو رسول اللہ ﷺ نے کہا: یا اللہ! میں تیری ذات کے وسیلے سے پناہ مانگتا ہوں۔ پھر فرمایا: یا تمہارے نیچے سے عذاب آ جائے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے کہا: اے اللہ! میں تیری ذات کے ذریعے سے اس کی پناہ چاہتا ہوں۔ پھر فرمایا: یا تمہیں مختلف گروہوں میں تقسیم کر کے باہم دست و گریبان کر دے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ عذاب ہلکا اور آسان ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4628]
حدیث حاشیہ:
کیونکہ پہلے عذاب تو عام عذاب تھے، جس سے کوئی نہ بچتا، اس میں تو کچھ بچ رہتے ہیں، کچھ مارے جاتے ہیں۔
دوسری روایت میں ہے کہ اللہ نے میری امت پر سے رجم یعنی آسمان سے پتھر برسنے کا عذاب اور خسف یعنی زمین میں دھنسنے کا عذاب موقوف رکھا پر یہ عذاب یعنی آپس کی پھوٹ اور نا اتفاقی کا عذاب باقی رکھا۔
بعضوں نے کہا موقوف رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ ؓ کے زمانہ میں یہ عذاب موقوف رکھا۔
آئندہ اس امت میں خسف اور قذف اور مسخ ہوگا، جیسے دوسری حدیث میں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4628   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4628  
4628. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب یہ آیت نازل ہوئی: "کہہ دیجیے: وہ قادر ہے کہ تم پر تمہارے اوپر سے عذاب بھیجے۔" تو رسول اللہ ﷺ نے کہا: یا اللہ! میں تیری ذات کے وسیلے سے پناہ مانگتا ہوں۔ پھر فرمایا: یا تمہارے نیچے سے عذاب آ جائے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے کہا: اے اللہ! میں تیری ذات کے ذریعے سے اس کی پناہ چاہتا ہوں۔ پھر فرمایا: یا تمہیں مختلف گروہوں میں تقسیم کر کے باہم دست و گریبان کر دے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ عذاب ہلکا اور آسان ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4628]
حدیث حاشیہ:

اس کا مطلب یہ ہے لوگوں کا فتنہ اور ان کا آپس میں دست و گریبان ہونا اللہ کے عذاب کے مقابلے میں آسان ہے۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ یہ امت فتنوں میں مبتلا رہی ہے۔

دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اوپر سے عذاب رجم کی صورت میں اور نیچے سے عذاب خسف کی شکل میں بھی ہو سکتا ہے جن سے رسول اللہ ﷺ نے پناہ مانگی ہے۔
لیکن ایک دوسری حدیث میں ہے کہ قرب قیامت کے وقت اس امت میں خسف ہو گا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس میں تطبیق یہ بیان کی ہےکہ خسف میں چند افراد مبتلا ہوں گے، پوری امت اس عذاب کی لپیٹ میں نہیں آئے گی تو جن روایات میں خسف کی نفی ہے یہ نفی پوری امت کے اعتبار سے ہے اور جن میں اس کے واقع ہونے کا ذکر ہے وہ چند افراد کے لحاظ سے ہے۔
اس لیے ان احادیث میں کوئی تعارض اور اختلاف نہیں ہے۔
(فتح الباري: 371/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4628