صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ -- کتاب: نماز کے احکام و مسائل
58. بَابُ نَوْمِ الرِّجَالِ فِي الْمَسْجِدِ:
باب: مسجدوں میں مردوں کا سونا۔
وَقَالَ أَبُو قِلَابَةَ: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَدِمَ رَهْطٌ مِنْ عُكْلٍ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانُوا فِي الصُّفَّةِ، وَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ: كَانَ أَصْحَابُ الصُّفَّةِ الْفُقَرَاءَ.
‏‏‏‏ اور ابوقلابہ نے انس بن مالک سے نقل کیا ہے کہ عکل نامی قبیلہ کے کچھ لوگ (جو دس سے کم تھے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے، وہ مسجد کے سائبان میں ٹھہرے۔ عبدالرحمٰن بن ابی بکر نے فرمایا کہ صفہ میں رہنے والے فقراء لوگ تھے۔
حدیث نمبر: 440
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ أَنَّهُ كَانَ يَنَامُ وَهْوَ شَابٌّ أَعْزَبُ لاَ أَهْلَ لَهُ فِي مَسْجِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ نے عبیداللہ کے واسطہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ کو نافع نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ وہ اپنی نوجوانی میں جب کہ ان کے بیوی بچے نہیں تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں سویا کرتے تھے۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 723  
´مسجد میں سونے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں جب وہ نوجوان اور غیر شادی شدہ تھے تو مسجد نبوی میں سوتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 723]
723 ۔ اردو حاشیہ: مسجد سونے کے لیے نہیں بنائی گئی، لہٰذا مسجد کو بلاوجہ اور مستقل سونے کے لیے استعمال کرنا درست نہیں، البتہ ضرورت کے پیش نظر جائز ہے، مثلاً: نماز کے انتظار میں کچھ دیر سستا لینا یا اعتکاف کے دوران میں آرام کرنا یا بے گھر اور مسافر آدمی کا مسجد میں ٹھہرنا، اسی طرح طالب علم جو مسجد میں تعلیم حاصل کر رہا ہو، کا مسجد میں رہائش اختیار کرنا وغیرہ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما چونکہ غیرشادی شدہ تھے، لہٰذا بے گھر کے زمرے میں آتے تھے۔ اس حدیث سے مزید ایک اور بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اجازت صرف بوڑھے کے لیے نہیں بلکہ نوجوان بھی سوسکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 723   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3919  
´خواب کی تعبیر کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک نوجوان غیر شادی شدہ لڑکا تھا، اور رات میں مسجد میں سویا کرتا تھا، اور ہم میں سے جو شخص بھی خواب دیکھتا وہ اس کی تعبیر آپ سے پوچھا کرتا، میں نے (ایک دن دل میں) کہا: اے اللہ! اگر میرے لیے تیرے پاس خیر ہے تو مجھے بھی ایک خواب دکھا جس کی تعبیر میرے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرما دیں، پھر میں سویا تو میں نے دو فرشتوں کو دیکھا کہ وہ میرے پاس آئے، اور مجھے لے کر چلے، (راستے میں) ان دونوں کو ایک اور فرشتہ ملا اور اس نے کہا: تم خوفزدہ نہ ہو، بالآخر وہ دونوں ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب تعبير الرؤيا/حدیث: 3919]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ایک نوجوان کنوارا آدمی ضرورت پڑنے پر دن یا رات کو مسجد میں سوسکتا ہے۔

(2)
نیک آدمی کی اس انداز سے تعریف کرنا جائز ہے جس سے اس میں فخر کے جذبات پیدا ہونے کا خدشہ نہ ہو۔

(3)
نیکی کی ترغیب دلانے کے لیے موجود نیکی کا ذکر کرکے کوتاہی بیان کرنا درست ہے تاکہ اصلاح کی ہمت پیدا ہو۔

(4)
اس میں حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے جنتی ہونے کا اشارہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3919   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3825  
´عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کے مناقب کا بیان`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا گویا میرے ہاتھ میں موٹے ریشم کا ایک ٹکڑا ہے اور اس سے میں جنت کی جس جگہ کی جانب اشارہ کرتا ہوں تو وہ مجھے اڑا کر وہاں پہنچا دیتا ہے، تو میں نے یہ خواب (ام المؤمنین) حفصہ رضی الله عنہا سے بیان کیا پھر حفصہ رضی الله عنہا نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو آپ نے فرمایا: تیرا بھائی ایک مرد صالح ہے یا فرمایا: عبداللہ مرد صالح ہیں ۱؎۔ امام ترمذی: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3825]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
کسی کے صالح ہونے کی شہادت اللہ کے رسول ﷺدیں،
اس کے شرف کا کیا پوچھنا!۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3825   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 440  
440. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ وہ مسجد نبوی میں سویا کرتے تھے جب کہ وہ غیر شادی شدہ جوان تھے اور ان کا گھر بار نہیں تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:440]
حدیث حاشیہ:
ادب کے ساتھ بوقت ضرورت جوانوں بوڑھوں کے لیے مسجد میں سونا جائز ہے۔
صفہ مسجد نبوی کے سامنے ایک سایہ دار جگہ تھی۔
جوآج بھی مدینہ منورہ جانے والے دیکھتے ہیں، یہاں آپ ﷺ سے تعلیم حاصل کرنے والے رہتے تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 440   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:440  
440. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ وہ مسجد نبوی میں سویا کرتے تھے جب کہ وہ غیر شادی شدہ جوان تھے اور ان کا گھر بار نہیں تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:440]
حدیث حاشیہ:
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے متعلق ایک روایت میں ہے کہ نکاح سے پہلے ان کا گھر مسجد ہی تھا اور آپ وہیں سوتے تھے۔
(صحیح البخاري، التعبیر،حدیث: 7028)
حضرت ابن عمر ؓ خود فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ کوشش کی کہ رہنے کے لیے جھونپڑی بنا لوں، مگر افسوس کہ مخلوق میں سے کسی نے میری مدد نہ کی۔
(سنن ابن ماجة، الزھد، حدیث: 4162)
اس لیے وہ مسافر سے بھی زیادہ مسجد میں اقامت گزیں ہونے کے حقدار تھے۔
واضح رہے کہ ان جزوی واقعات سے مسجد میں سونے کی اجازت کو ثابت کیا جا رہا ہے۔
ان سے مراد میں سونے کی ترغیب نہیں، کیونکہ یہ اجازت صرف ضرورت کے پیش نظر ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 440