صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: {قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ} :
باب: آیت کی تفسیر ”آپ کہہ دیں کہ میرے پروردگار نے بےحیائی کے کاموں کو حرام کیا ہے، ان میں سے جو ظاہر ہوں (ان کو بھی) اور جو چھپے ہوئے ہوں (ان کو بھی)۔
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَرِيَاشًا الْمَالُ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ، الْمُعْتَدِينَ: فِي الدُّعَاءِ وَفِي غَيْرِهِ، عَفَوْا: كَثُرُوا وَكَثُرَتْ أَمْوَالُهُمْ، الْفَتَّاحُ: الْقَاضِي، افْتَحْ بَيْنَنَا: اقْضِ بَيْنَنَا، نَتَقْنَا: الْجَبَلَ رَفَعْنَا، انْبَجَسَتْ: انْفَجَرَتْ، مُتَبَّرٌ: خُسْرَانٌ، آسَى: أَحْزَنُ، تَأْسَ: تَحْزَنْ، وَقَالَ غَيْرُهُ: مَا مَنَعَكَ أَنْ لَا تَسْجُدَ: يَقُولُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ، يَخْصِفَانِ: أَخَذَا الْخِصَافَ مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ، يُؤَلِّفَانِ الْوَرَقَ يَخْصِفَانِ الْوَرَقَ بَعْضَهُ إِلَى بَعْضٍ، سَوْآتِهِمَا: كِنَايَةٌ عَنْ فَرْجَيْهِمَا، وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ: هُوَ هَا هُنَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَالْحِينُ عِنْدَ الْعَرَبِ مِنْ سَاعَةٍ إِلَى مَالَا يُحْصَى عَدَدُهُ الرِّيَاشُ وَالرِّيشُ وَاحِدٌ وَهْوَ مَا ظَهَرَ مِنَ اللِّبَاسِ، قَبِيلُهُ: جِيلُهُ الَّذِي هُوَ مِنْهُمْ، ادَّارَكُوا: اجْتَمَعُوا وَمَشَاقُّ الْإِنْسَانِ وَالدَّابَّةِ كُلُّهَا يُسَمَّى سُمُومًا، وَاحِدُهَا سَمٌّ، وَهِيَ عَيْنَاهُ وَمَنْخِرَاهُ وَفَمُهُ وَأُذُنَاهُ وَدُبُرُهُ وَإِحْلِيلُهُ، غَوَاشٍ: مَا غُشُّوا بِهِ، نُشُرًا: مُتَفَرِّقَةً، نَكِدًا: قَلِيلًا، يَغْنَوْا: يَعِيشُوا، حَقِيقٌ: حَقٌّ، اسْتَرْهَبُوهُمْ: مِنَ الرَّهْبَةِ، تَلَقَّفُ: تَلْقَمُ، طَائِرُهُمْ: حَظُّهُمْ طُوفَانٌ مِنَ السَّيْلِ، وَيُقَالُ: لِلْمَوْتِ الْكَثِيرِ الطُّوفَانُ الْقُمَّلُ الْحُمْنَانُ يُشْبِهُ صِغَارَ الْحَلَمِ عُرُوشٌ وَعَرِيشٌ بِنَاءٌ، سُقِطَ: كُلُّ مَنْ نَدِمَ فَقَدْ سُقِطَ فِي يَدِهِ الْأَسْبَاطُ، قَبَائِلُ بَنِي إِسْرَائِيلَ، يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ: يَتَعَدَّوْنَ لَهُ يُجَاوِزُونَ تَجَاوُزٌ بَعْدَ تَجَاوُزٍ، تَعْدُ تُجَاوِزْ، شُرَّعًا: شَوَارِعَ، بَئِيسٍ: شَدِيدٍ، أَخْلَدَ: إِلَى الْأَرْضِ قَعَدَ وَتَقَاعَسَ، سَنَسْتَدْرِجُهُمْ: أَيْ نَأْتِيهِمْ مِنْ مَأْمَنِهِمْ كَقَوْلِهِ تَعَالَى، فَأَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا مِنْ جِنَّةٍ: مِنْ جُنُونٍ أَيَّانَ مُرْسَاهَا مَتَى خُرُوجُهَا، فَمَرَّتْ بِهِ: اسْتَمَرَّ بِهَا الْحَمْلُ فَأَتَمَّتْهُ، يَنْزَغَنَّكَ: يَسْتَخِفَّنَّكَ طَيْفٌ مُلِمٌّ بِهِ لَمَمٌ وَيُقَالُ، طَائِفٌ: وَهُوَ وَاحِدٌ، يَمُدُّونَهُمْ: يُزَيِّنُونَ، وَخِيفَةً: خَوْفًا وَخُفْيَةً مِنَ الْإِخْفَاءِ وَالْآصَالُ وَاحِدُهَا أَصِيلٌ وَهُوَ مَا بَيْنَ الْعَصْرِ إِلَى الْمَغْرِبِ كَقَوْلِهِ: بُكْرَةً وَأَصِيلًا.
‏‏‏‏ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «يوارى»، «سواتكم»، «ورياشا» میں «رياشا» سے مال اسباب مراد ہے۔ «لا يحب المعتدين» میں «معتدي» سے دعا میں حد سے بڑھ جانے والے مراد ہیں۔ «عفوا‏» کا معنی بہت ہو گئے ان کے مال زیادہ ہوئے۔ «فتاح‏» کہتے ہیں فیصلہ کرنے والے کو۔ «افتح بيننا‏» ہمارا فیصلہ کر۔ «نتقنا‏» اٹھایا۔ «انبجست‏» پھوٹ نکلے۔ «متبر‏» تباہی نقصان۔ «آسى‏» غم کھاؤں۔ «فلا تأس‏» غم نہ کھا۔ اوروں نے کہا «ما منعك أن لا تسجد‏» میں «لا» زائد ہے۔ یعنی تجھے سجدہ کرنے سے کس بات نے روکا «يخصفان‏ من ورق الجنة» انہوں نے بہشت کے پتوں کا «دونا» بنا لیا یعنی بہشت کے پتے اپنے اوپر جوڑ لیے (تاکہ ستر نظر نہ آئے)۔ «سوآتهما‏» سے شرمگاہ مراد ہے۔ «ومتاع إلى حين‏» میں «حين‏» سے قیامت مراد ہے۔ عرب کے محاورے میں «حين‏» ایک ساعت سے لے کے بے انتہا مدت کو کہہ سکتے ہیں۔ «رياشا» اور «ريش» کے معنی ایک ہیں یعنی ظاہری لباس۔ «قبيله‏» اس کی ذات والے شیطان جن میں سے وہ خود بھی ہے۔ «اداركوا‏» اکٹھا ہو جائیں گے آدمی اور جانور سب کے سوراخ (یا مساموں) کو «سموم» کہتے ہیں اس کا مفرد «سم» یعنی آنکھ کے سوراخ، نتھنے، منہ، کان، پاخانہ کا مقام، پیشاب کا مقام۔ «غواش‏» غلاف جس سے ڈھانپے جائیں گے۔ «نشرا‏» متفرق «نكدا‏» تھوڑا۔ «يغنوا‏» جیے یا بسے۔ «حقيق‏» حق واجب۔ «استرهبوهم‏»، «رهبة» سے نکلا ہے یعنی ڈرایا۔ «تلقف‏» لقمہ کرنے لگا (نگلنے لگا)۔ «طائرهم‏» ان کا نصیبہ حصہ طوفان سیلاب، کبھی موت کی کثرت کو بھی طوفان کہتے ہیں۔ «قمل» چچڑیاں چھوٹی جوؤں کی طرح۔ «عروش» اور «عريش» عمارت، «سقط‏» جب کوئی شرمندہ ہوتا ہے تو کہتے ہیں «سقط في يده‏.‏» ۔ «الأسباط» بنی اسرائیل کے خاندان قبیلے «يعدون في السبت‏» ہفتہ کے دن حد سے بڑھ جاتے تھے اسی سے ہے «تعد» یعنی حد سے بڑھ جائے۔ «شرعا‏» پانی کے اوپر تیرتے ہوئے۔ «بئيس‏» سخت۔ «أخلد‏» بیٹھ رہا، پیچھے ہٹ گیا۔ «سنستدرجهم‏» یعنی جہاں سے ان کو ڈر نہ ہو گا ادھر سے ہم آئیں گے جیسے اس آیت میں ہے «فأتاهم الله من حيث لم يحتسبوا‏» یعنی اللہ کا عذاب ادھر سے آ پہنچا جدھر سے گمان نہ تھا۔ «من جنة‏» یعنی جنون دیوانگی «فمرت به‏» برابر پیٹ رہا، اس نے پیٹ کی مدت پوری کی «ينزغنك‏» گدگدائے پھسلائے۔ «طيف» ‏‏‏‏ اور «طائف‏» شیطان کی طرف سے جو اترے یعنی وسوسہ آئے۔ دونوں کا معنی ایک ہے «يمدونهم‏» ان کو اچھا کر دکھلاتے ہیں «خفية» کا معنی خوف، ڈر «خيفة‏»، «الإخفاء» ‏‏‏‏ سے ہے یعنی چپکے چپکے «الآصال»، «أصيل» ‏‏‏‏ کی جمع ہے وہ وقت جو عصر سے مغرب تک ہوتا ہے جیسے اس آیت میں ہے «بكرة وأصيلا‏» ۔
حدیث نمبر: 4637
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ عَبْدِ اللَّهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَرَفَعَهُ، قَالَ:" لَا أَحَدَ أَغْيَرُ مِنَ اللَّهِ، فَلِذَلِكَ حَرَّمَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَلَا أَحَدَ أَحَبُّ إِلَيْهِ الْمِدْحَةُ مِنَ اللَّهِ فَلِذَلِكَ مَدَحَ نَفْسَهُ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے، ان سے ابووائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے (عمرو بن مرہ نے بیان کیا کہ) میں نے (ابووائل سے) پوچھا، کیا تم نے یہ حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے خود سنی ہے؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ سے زیادہ اور کوئی غیرت مند نہیں ہے۔ اسی لیے اس نے بےحیائیوں کو حرام کیا خواہ ظاہر میں ہوں یا پوشیدہ اور اللہ سے زیادہ اپنی مدح کو پسند کرنے والا اور کوئی نہیں، اسی لیے اس نے اپنے نفس کی خود تعریف کی ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4637  
4637. حضرت عمرو بن مرہ سے روایت ہے، انہوں نے ابووائل سے پوچھا: کیا آپ نے یہ حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، وہ اسے مرفوع (رسول اللہ ﷺ سے) بیان کرتے تھے کہ کوئی شخص بھی اللہ تعالٰی سے بڑھ کر غیرت مند نہیں، اسی لیے تو اس نے کھلی اور پوشیدہ بے حیائیوں کو حرام قرار دیا ہے۔ اور کوئی شخص نہیں جسے مدح و تعریف اللہ تعالٰی سے زیادہ محبوب ہو اسی لیے اللہ تعالٰی نے اپنی مدح فرمائی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4637]
حدیث حاشیہ:
اہل حدیث نے صفات الٰہیہ جیسے غضب، ضحک، تعجب، فرح کی طرح غیرت کی بھی تاویل نہیں کی ہے اور ان کو ان کے ظاہری معانی پر رکھا ہے۔
جو پرورد گار کی شان کے لائق ہے اور سلف صالحین کا یہی طریقہ ہے۔
ونحن علیٰ ذٰلك من الشاھدین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4637   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4637  
4637. حضرت عمرو بن مرہ سے روایت ہے، انہوں نے ابووائل سے پوچھا: کیا آپ نے یہ حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، وہ اسے مرفوع (رسول اللہ ﷺ سے) بیان کرتے تھے کہ کوئی شخص بھی اللہ تعالٰی سے بڑھ کر غیرت مند نہیں، اسی لیے تو اس نے کھلی اور پوشیدہ بے حیائیوں کو حرام قرار دیا ہے۔ اور کوئی شخص نہیں جسے مدح و تعریف اللہ تعالٰی سے زیادہ محبوب ہو اسی لیے اللہ تعالٰی نے اپنی مدح فرمائی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4637]
حدیث حاشیہ:

آدمی کی غیرت یہ ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کے ہاں کسی اجنبی کو نہ آنے دے اور نہ یہ برداشت کرے کہ کوئی اجنبی شخص انھیں دیکھے۔
غیور کے مقابلے میں دیوث ہوتا ہے جو اپنے اہل خانہ میں خباثت وگندگی کو ٹھنڈے پیٹ برداشت کرلیتا ہے۔
اللہ کی غیرت یہ ہے کہ وہ مومن کو ان چیزوں سے منع کرتا ہے جو اس نے حرام کی ہیں۔
اس نے بے حیائی کے تمام کام حرام کر دیے ہیں اور ان کے کرنے پر سزا کی وعید سنائی ہے۔

اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے لیے صفت غیرت کو ثابت کیا گیا ہے۔
ہم اس کی کوئی تاویل نہیں کرتے بلکہ اسے ظاہری معنی پر محمول کرتے ہیں جو اس پرورد گار کے شایان شان ہے۔
سلف صالحین کا یہی طریقہ ہے کہ نہ ان صفات کا انکار کرتے ہیں اور نہ ان کی تایل ہی کا سہارا لیتے ہیں۔
اس کی تفصیل ہم آگے کتاب التوحید میں بیان کریں گے۔
باذن اللہ تعالیٰ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4637