صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
2M. بَابُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى:
باب: آیت کی تفسیر ”ہم نے تمہارے کھانے کے لیے من اور سلویٰ اتارا“۔
حدیث نمبر: 4639
حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" الْكَمْأَةُ مِنَ الْمَنِّ، وَمَاؤُهَا شِفَاءُ الْعَيْنِ".
ہم سے مسلم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبدالملک نے، ان سے عمرو بن حریث نے اور ان سے سعید بن زید رضی اللہ عنہما کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کھنبی «من» میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھوں کے لیے شفاء ہے۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4478  
´اور تم پر ہم نے من و سلویٰ اتارا `
«. . . عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْكَمْأَةُ مِنَ الْمَنِّ وَمَاؤُهَا شِفَاءٌ لِلْعَيْنِ . . .»
. . . سعید بن زید رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «كمأة» (یعنی کھنبی، سانپ کی چھتری) بھی «من» کی قسم ہے اور اس کا پانی آنکھ کی دوا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ: 4478]

باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 4478 کا باب: «بَابُ وَقَوْلُهُ تَعَالَى: {وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ}
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں ان اشیاء کا ذکر فرمایا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لئے نازل فرمایا تھا، مگر تحت الباب میں جن اشیاء کا ذکر ہے اس میں ایک «من» ہے اور دوسرا «الكماة» لہٰذا ترجمتہ الباب پر اعتراض کرتے ہوئے علامہ خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لا وجه لادخال هذا الحديث هنا، قال: لأنه ليس المراد فى الحديث أنها نوع من المن لمنزل على بني اسرائيل فان ذاك شيئي كان يسقط عليهم كالتر نجبيل» [فتح الباري لابن حجر: 140/8]
یعنی یہ روایت ترجمۃ الباب میں مناسبت نہیں رکھتی، کیونکہ ترجمۃ الباب میں اس «من» کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لئے آسمان سے نازل فرمایا تھا، جبکہ «الكماة» سانپ کی چھتری زمین پر آ گئی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام خطابی رحمہ اللہ کے اعتراض کو نقل کرنے کے بعد واضح طور پر فرمایا کہ ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت موجود ہے، دراصل علامہ خطابی رحمہ االلہ کی نظر صحیح مسلم کی حدیث تک نہیں پہنچتی جس کی طرف امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا ہے، حدیث میں واضح طور پر جو الفاظ ہیں وہ ترجمۃ الباب سے مناسبت رکھتے ہیں، امام مسلم رحمہ اللہ صحیح مسلم کتاب الاشربہ میں حدیث کا ذکر فرماتے ہیں کہ:
«الكماة من المن الذى انزل الله تبارك وتعالٰي علٰي بني اسرائيل وماؤها شفاء للعين.» [صحيح مسلم: 5347]
صحیح مسلم کی اس حدیث نے واضح کیا کہ جس طرح «من» اللہ تعالیٰ نے آسمان سے نازل فرمایا اسی کی مصداق «الكماة» بھی ہے، لہٰذا اس حدیث پر اگر امام خطابی رحمہ اللہ کی نظر پڑتی تو آپ یہ اعتراض نہ کرتے، لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح مسلم کی حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں «الكماة» کو بھی «من» کی طرح نازل شدہ قرار دیا گیا ہے، اور اگر مزید غور کیا جائے تو ترجمہ الباب کی حدیث سے مناسبت لفظ «من المن» سے بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے «الكماة» کو «من» سے تعبیر کیا، یعنی جس طرح «من» باآسانی بنی اسرائیل کے لیے میسر تھا بیعن اسی طرح «الكماة» بھی اسی کے ساتھ باآسانی میسر تھی، لہٰذا باب اور حدیث میں مناسبت اس نکتہ کے ساتھ بھی ہے، صاحب منار القاری الشیخ حمزۃ محمد قاسم ترجمتہ الباب میں تطبیق دیتے ہوئے رقمطراز ہیں:
«دل الحديث على أن الكماة من النعم التى انعم الله بها على هذه الأمة...... والمطابقة فى قوله من المن [منار القاري شرح مختصر صحيح البخاري: 33/5]
حدیث اس پر دال ہے کہ «الكماة» بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت میں سے ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس امت پر انعام کیا۔۔۔۔۔۔۔ اور مطابقت ترجمہ الباب سے حدیث کے لفظ «من المن» میں ہے۔
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے «الكماة» چھتری والے سانپ کو «من» میں داخل فرمایا ہے، پس یہاں بھی ترجمۃ الباب میں حدیث کی مطابقت بنتی ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 61   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4639  
4639. حضرت سعید بن زید ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: کھمبی "من" سے ہے اور اس کا پانی آنکھوں کے لیے شفا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4639]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں کھمبی کو "مَن" کی قسم بتایا گیا ہے کیونکہ یہ خود بخود پیدا ہوتی ہے، اس کے لیے کسی بیج وکھاد یا پانی کی کوئی مشقت نہیں اٹھانا پڑتی جیسا کہ بنی اسرائیل کو من وسلویٰ بغیرمحنت ومشقت سے ملتا تھا۔
یہ کھمبی عام طور پر سردی کے موسم میں اُگتی ہے۔
اس کا پانی آنکھ کی ہر بیماری کے لیے شفا ہے۔

کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اسے دوسری ادویات کے ساتھ ملا کر استعمال کیا جائے تو سود مند ہے، صرف پانی آنکھ کو نقصان دیتا ہے لیکن ہمارا تجربہ ہے کہ آنکھ اگرحرارت یا برودت کی وجہ سے خراب ہوتوصرف پانی استعمال کرنے سے آرام آجاتا ہے۔
ہم اس کے متعلق اپنی گزارشات حدیث: 4478 کے فوائد میں ذکر کرآئے ہیں اور کچھ گزارشات کتاب الطب میں ذکر ہوں گی۔
باذن اللہ تعالیٰ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4639