صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
4. بَابُ قَوْلِهِ: {وَقُولُوا حِطَّةٌ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور کہتے جاؤ کہ یا اللہ! گناہوں سے ہماری توبہ ہے“۔
حدیث نمبر: 4641
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قِيلَ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ، وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ سورة البقرة آية 58 فَبَدَّلُوا فَدَخَلُوا يَزْحَفُونَ عَلَى أَسْتَاهِهِمْ، وَقَالُوا: حَبَّةٌ فِي شَعَرَةٍ".
ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالرزاق نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں ہمام بن منبہ نے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل سے کہا گیا تھا کہ دروازے میں (عاجزی سے) جھکتے ہوئے داخل ہو اور کہتے جاؤ کہ توبہ ہے، تو ہم تمہاری خطائیں معاف کر دیں گے، لیکن انہوں نے حکم بدل ڈالا۔ چوتڑوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور یہ کہا کہ «حبة في شعرة» یعنی ہم کو بالیوں میں دانہ چاہیئے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2956  
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ: «ادخلوا الباب سجدا» اور جھکے جھکے دروازہ میں داخل ہونا (البقرہ: ۵۸) کے بارے میں فرمایا: بنی اسرائیل چوتڑ کے بل کھسکتے ہوئے داخل ہوئے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2956]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اور جھکے جھکے دروازہ میں داخل ہونا (البقرۃ: 58)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2956   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4641  
4641. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب بنی اسرائیل سے کہا گیا تھا: "تم دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو جاؤ اور کہو کہ ہمیں معاف کر دیا جائے، ہم تمہارے گناہ معاف کر دیں گے۔" انہوں نے اس حکم کو یوں بدلا کہ وہ سرینوں کو گھسیٹتے ہوئے اور حِطَّةٌ کے بجائے حبة بالی میں دانہ کہتے داخل ہوئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4641]
حدیث حاشیہ:
بنی اسرائیل کی ایک حرکت کا بیان ہے کہ کس طرح انہوں نے اللہ کے حکم کو بدل ڈالا اور خدا کی لعنت میں گرفتار ہوئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4641   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4641  
4641. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب بنی اسرائیل سے کہا گیا تھا: "تم دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو جاؤ اور کہو کہ ہمیں معاف کر دیا جائے، ہم تمہارے گناہ معاف کر دیں گے۔" انہوں نے اس حکم کو یوں بدلا کہ وہ سرینوں کو گھسیٹتے ہوئے اور حِطَّةٌ کے بجائے حبة بالی میں دانہ کہتے داخل ہوئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4641]
حدیث حاشیہ:

قرآن کریم میں ہے:
"پھر ان ظالموں نے اس بات کو بدل ڈالا جو ان سے کہی گئی تھی تو ہم نے بھی ان ظلم پیشہ لوگوں پر ان کے فسق ونافرمانی کی وجہ سے آسمانی عذاب نازل کیا۔
" (البقرة: 59/2)
بہرحال ان بدبختوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی پوری پوری نافرمانی کی۔
فتح کے بعد ان میں عجزوانکسار کے بجائے فخروگھمنڈ پیدا ہوگیا اور وہ اترانے لگے۔

اس واقعے سے ان کی نافرمانی اور سرکشی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے جو ان کے اندر پیدا ہوگئی تھی اور احکام الٰہی سے تمسخر اور استہزاء کا بھی پتہ چلتا ہے، واقعہ یہ ہے کہ جب کوئی قوم اخلاق و کردار کے لحاظ سے زوال پذیر ہوجائے تو اس کا معاملہ احکام الٰہیہ کے ساتھ اسی طرح کا ہوجاتا ہے جیسا کہ بنی اسرائیل نے کیا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے انھیں اس خلاف ورزی کی پاداش میں طاعون جیسے موذی مرض میں مبتلا کردیا جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
یہ طاعون اسی رجز اورعذاب کاحصہ ہے جو تم سے پہلے کچھ لوگوں پر نازل ہوا۔
(صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5772(2218)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4641