صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
5. بَابُ: {خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ} ، الْعُرْفُ الْمَعْرُوفُ:
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! معافی اختیار کر اور نیک کاموں کا حکم دیتے رہو اور جاہلوں سے منہ موڑیو «العرف» ، «المعروف» کے معنی میں ہے جس کے معنی نیک کاموں کے ہیں۔
حدیث نمبر: 4642
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَدِمَ عُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنِ بْنِ حُذَيْفَةَ، فَنَزَلَ عَلَى ابْنِ أَخِيهِ الْحُرِّ بْنِ قَيْسٍ، وَكَانَ مِنَ النَّفَرِ الَّذِينَ يُدْنِيهِمْ عُمَرُ، وَكَانَ الْقُرَّاءُ أَصْحَابَ مَجَالِسِ عُمَرَ، وَمُشَاوَرَتِهِ كُهُولًا كَانُوا أَوْ شُبَّانًا، فَقَالَ عُيَيْنَةُ لِابْنِ أَخِيهِ: يَا ابْنَ أَخِي، هَلْ لَكَ وَجْهٌ عِنْدَ هَذَا الْأَمِيرِ فَاسْتَأْذِنْ لِي عَلَيْهِ؟ قَالَ: سَأَسْتَأْذِنُ لَكَ عَلَيْهِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَاسْتَأْذَنَ الْحُرُّ لِعُيَيْنَةَ فَأَذِنَ لَهُ عُمَرُ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ، قَالَ: هِي يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، فَوَاللَّهِ مَا تُعْطِينَا الْجَزْلَ، وَلَا تَحْكُمُ بَيْنَنَا بِالْعَدْلِ، فَغَضِبَ عُمَرُ، حَتَّى هَمَّ أَنْ يُوقِعَ بِهِ، فَقَالَ لَهُ الْحُرُّ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى، قَالَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ سورة الأعراف آية 199، وَإِنَّ هَذَا مِنَ الْجَاهِلِينَ، وَاللَّهِ مَا جَاوَزَهَا عُمَرُ حِينَ تَلَاهَا عَلَيْهِ، وَكَانَ وَقَّافًا عِنْدَ كِتَابِ اللَّهِ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عیینہ بن حصن بن حذیفہ نے اپنے بھتیجے حر بن قیس کے یہاں آ کر قیام کیا۔ حر، ان چند خاص لوگوں میں سے تھے جنہیں عمر رضی اللہ عنہ اپنے بہت قریب رکھتے تھے جو لوگ قرآن مجید کے زیادہ عالم اور قاری ہوتے۔ عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس میں انہیں کو زیادہ نزدیکی حاصل ہوتی تھی اور ایسے لوگ آپ کے مشیر ہوتے۔ اس کی کوئی قید نہیں تھی کہ وہ عمر رسیدہ ہوں یا نوجوان۔ عیینہ نے اپنے بھتیجے سے کہا کہ تمہیں اس امیر کی مجلس میں بہت نزدیکی حاصل ہے۔ میرے لیے بھی مجلس میں حاضری کی اجازت لے دو۔ حر بن قیس نے کہا کہ میں آپ کے لیے بھی اجازت مانگوں گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما رضی اللہ عنہ نے بیان کیا۔ چنانچہ انہوں نے عیینہ کے لیے بھی اجازت مانگی اور عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں مجلس میں آنے کی اجازت دے دی۔ مجلس میں جب وہ پہنچے تو کہنے لگے: اے خطاب کے بیٹے! اللہ کی قسم! نہ تو تم ہمیں مال ہی دیتے ہو اور نہ عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتے ہو۔ عمر رضی اللہ عنہ کو ان کی اس بات پر بڑا غصہ آیا اور آگے بڑھ ہی رہے تھے کہ حر بن قیس نے عرض کیا: یا امیرالمؤمنین! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے خطاب کر کے فرمایا ہے معافی اختیار کر اور نیک کام کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کش ہو جایا کیجئے۔ اور یہ بھی جاہلوں میں سے ہیں۔ اللہ کی قسم! کہ جب حر نے قرآن مجید کی تلاوت کی تو عمر رضی اللہ عنہ بالکل ٹھنڈے پڑ گئے اور کتاب اللہ کے حکم کے سامنے آپ کی یہی حالت ہوتی تھی۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4642  
4642. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: عیینہ بن حصن بن حذیفہ نے اپنے بھتیجے حضرت حر بن قیس کے ہاں قیام کیا۔ حضرت حر بن قیس ان خاص لوگوں میں سے تھے جنہیں حضرت عمر ؓ اپنے بہت قریب رکھتے تھے کیونکہ جو لوگ قرآن کریم کے زیادہ عالم اور قاری ہوتے انہیں حضرت عمر ؓ کی مجلس میں بڑی پذیرائی حاصل ہوتی تھی۔ ایسے لوگ ہی آپ کے مشیر ہوتے تھے، قطع نظر اس سے کہ وہ عمر رسیدہ ہوں یا نوجوان۔ بہرحال عیینہ بن حصن نے اپنے بھتیجے سے کہا: تمہیں اس امیر کی مجلس میں بڑا قرب حاصل ہے، لہذا مجھے بھی مجلس میں حاضری کی اجازت لے دو۔ حر بن قیس نے کہا: میں آپ کے لیے مجلس میں حاضری کی اجازت مانگوں گا، چنانچہ انہوں نے عیینہ کے لیے اجازت مانگی تو حضرت عمر ؓ نے انہیں مجلس میں آنے کی اجازت دے دی۔ جب وہ مجلس میں پہنچا تو کہنے لگا: اے خطاب کے بیٹے! اللہ کی قسم! نہ تم ہمیں مال دیتے ہو اور نہ عدل کے مطابق۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4642]
حدیث حاشیہ:
ابن عباس ؓ بالکل نوجوان تھے لیکن حضرت عمرؓ کے پاس بیٹھتے۔
دوسرے بوڑھے بوڑھے لوگوں پر ان کا مرتبہ زیادہ رہتا۔
حضرت عمرؓعلم اور علماء کے قدردان تھے اور ہر ایک بادشاہ اسلام کو ایسا ہی کرنا چاہیئے۔
ہمیشہ عالموں کی قدر و منزلت اور تعظیم اور تکریم لازم ہے ورنہ پھر کوئی ان کے ملک میں علم نہ پڑھے گا اور ملک کیا ہوگا جاہلوں کا ڈربہ۔
ایسا ملک بہت جلد تباہ اور برباد ہوگا۔
افسوس! ہمارے زمانہ میں علم اور علماء کی قدر و منزلت تو کیا عالموں کو جاہلوں کے برابر بھی نہیں رکھا جاتا بلکہ جاہلوں کو جو عہدے اور منصب عطا کئے جاتے ہیں عالم ان کے مستحق اور سزا وار نہیں سمجھے جاتے۔
خود مجھ پر یہ واقعہ گزر چکا ہے۔
چند روز میں قضا کی آفت میں گرفتار کیا گیا تھا مگر خدا کا بڑا فضل ہوا۔
علم و فضل کی نا قدر دانی نے مجھ کو جلد سبکدوش کر دیا ورنہ معلوم نہیں کب تک اس آفت میں گرفتار رہتا۔
میں دل سے قضا کو مکروہ جانتا تھا خیر میں تو ہٹا دیا گیا اور دوسرے لوگ جو علم وفضل سے عاری اور ان کی قابلیت ایسی تھی کہ برسوں میں ان کو تعلیم دے سکتا تھا وہ اپنی خدمات پر بد ستور قائم رہے۔
گو میں اس انقلاب سے جہاں تک میری ذات سے متعلق تھا خوش ہوا اور سجدئہ شکر بجا لایا مگر ملک اور قوم پر رونا آیا۔
یا اللہ! ہمارے بادشاہوں کو سمجھ دے، آمین یا رب العالمین۔
اللہ اللہ! عیینہ کی بے ادبی اور گستاخی اور حضرت عمر ؓ کا صبر اور تحمل، اگر اور کوئی دنیا دار بادشاہ ہوتا توایسی زبان درازی اور بے ادبی پر کیسی سزا دیتا۔
عیینہ حضرت عمر ؓ کو بھی دنیا دار بادشاہوں کی طرح سمجھے کہ جاہل مصاحبوں اور واہی رفیقوں پر بادشادہی خزانہ جو رعایا کا مال ہے لٹاتے رہیں۔
حضرت عمر ؓ اپنے بیٹے عبد اللہ ؓ کو ادنیٰ سپاہی کی طرح تنخواہ دیا کرتے وہ بھلا ان سے واہی لوگوں کو کب دینے والے تھے۔
حضرت عمر ؓ کا ایمان اور اخلاص سمجھنے کے لیے انصاف والے آدمی کے لیے یہی قصہ کافی ہے۔
قرآن مجید کی آیت پڑھتے ہی غصہ جا تا رہا صبر اور تحمل پر عمل کیا سبحا ن اللہ، رضي اللہ عنه (وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4642   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4642  
4642. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: عیینہ بن حصن بن حذیفہ نے اپنے بھتیجے حضرت حر بن قیس کے ہاں قیام کیا۔ حضرت حر بن قیس ان خاص لوگوں میں سے تھے جنہیں حضرت عمر ؓ اپنے بہت قریب رکھتے تھے کیونکہ جو لوگ قرآن کریم کے زیادہ عالم اور قاری ہوتے انہیں حضرت عمر ؓ کی مجلس میں بڑی پذیرائی حاصل ہوتی تھی۔ ایسے لوگ ہی آپ کے مشیر ہوتے تھے، قطع نظر اس سے کہ وہ عمر رسیدہ ہوں یا نوجوان۔ بہرحال عیینہ بن حصن نے اپنے بھتیجے سے کہا: تمہیں اس امیر کی مجلس میں بڑا قرب حاصل ہے، لہذا مجھے بھی مجلس میں حاضری کی اجازت لے دو۔ حر بن قیس نے کہا: میں آپ کے لیے مجلس میں حاضری کی اجازت مانگوں گا، چنانچہ انہوں نے عیینہ کے لیے اجازت مانگی تو حضرت عمر ؓ نے انہیں مجلس میں آنے کی اجازت دے دی۔ جب وہ مجلس میں پہنچا تو کہنے لگا: اے خطاب کے بیٹے! اللہ کی قسم! نہ تم ہمیں مال دیتے ہو اور نہ عدل کے مطابق۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4642]
حدیث حاشیہ:

ایک داعی حق کے لیے اس میں سبق ہے کہ جب وہ نیکی کا حکم دینے میں اتمام حجت کرچکے اور پھر بھی کوئی نہ مانے تو ان سے اعراض کرلیا جائے اور ان کے جھگڑوں اور حماقتوں کا جواب نہ دیاجائے۔
اگراس موقع پر شیطان اشتعال دلانے کی کوشش کرے تو فوراً اللہ کی پناہ طلب کرنی چاہیے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اور اگرآپ کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آنے لگے تو آپ فوراً اللہ کی پناہ مانگیں، بلاشبہ وہ خوب سننے والاجاننے والا ہے۔
(الأعراف: 200/7)

عیینہ نے حضرت عمر ؓ کو عام بادشاہوں کی طرح خیال کیا جو جاہل مصاحبوں پر قومی خزانہ لٹا دیتے ہیں بلکہ اس نے سخت مزاجی اور ترش روئی کا کا مظاہرہ کیا لیکن حضرت عمر ؓ نے اللہ کی کتاب کا حکم سن کر صبر اور تحمل سے کام لیا، اگر کوئی دوسرا بادشاہ ہوتا تو اس طرح کی بے ادبی پر سزا دیتا۔
حضرت عمرفاروق ؓ کا ایمان اور ان کا اخلاص سمجھنے کے لیے یہ ایک واقعہ ہی کافی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4642