صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
5. بَابُ: {خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ} ، الْعُرْفُ الْمَعْرُوفُ:
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! معافی اختیار کر اور نیک کاموں کا حکم دیتے رہو اور جاہلوں سے منہ موڑیو «العرف» ، «المعروف» کے معنی میں ہے جس کے معنی نیک کاموں کے ہیں۔
حدیث نمبر: 4643
حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ سورة الأعراف آية 199، قَالَ:" مَا أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَّا فِي أَخْلَاقِ النَّاسِ".
ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آیت «خذ العفو وأمر بالعرف‏» معافی اختیار کیجئے اور نیک کام کا حکم دیتے رہئیے۔ لوگوں کے اخلاق کی اصلاح کے لیے ہی نازل ہوئی ہے۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4643  
4643. حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: درج ذیل آیت اللہ تعالٰی نے لوگوں کے اخلاق کی اصلاح کے لیے نازل فرمائی ہے: "معافی اختیار کیجیے اور نیکی کا حکم دیتے رہیے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4643]
حدیث حاشیہ:

اس آیت میں (عَفو)
کے متعلق دو آراء ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۔
ابن عباس ؓ کا مؤقف ہے کہ اس سے مراد لوگوں کے وہ مال ہیں جو ان کی ضروریات سے زائد ہوں، انھیں لینے کا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم ﷺ کو حکم دیا ہے اور یہ حکم زکاۃ کے احکام اترنے سے پہلے کا ہے۔
۔
حضرت ابن زبیر ؓ کا موقف ہے کہ اس سے مراد معاف کردینا ہے کہ لوگوں کے اخلاق واعمال کی جستجو کرنے کی بجائے انھیں معاف کردیا کریں جیسا کہ درج بالا احادیث سے واضح ہوتا ہے۔
علامہ ابن جریرطبری ؒ نے دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے کیونکہ اخلاق، خلق کی جمع ہے اور اس سے مراد وہ ملکہ ہے جس کے باعث افعال آسانی سے صادر ہوں۔
جعفر صادق ؒ نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم میں لوگوں کے مکارم اخلاق بیان کرنے کے بارے میں اس سے جامع کوئی آیت نہیں ہے۔

اصول اخلاق تین ہیں:
عقلی، شہوی اور غضبی۔
اورہرخلق کا کمال امرمتوسط ہے، خلق عقلی کا متوسط حکمت ہے۔
اس سے امر بالمعروف پیدا ہوتا ہے۔
شہوی کا متوسط عفت ہے۔
اس سے اخذ عفو پیدا ہوتا ہے اور قوت غضبی کا متوسط شجاعت ہے۔
اس سے جاہلوں سے اعراض پیدا ہوتا ہے۔
(عمدة القاري: 625/12)

حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت جبریل ؑ سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ مجھے علم نہیں، البتہ میں اللہ تعالیٰ سے دریافت کر کے اس کا مطلب بتا سکتا ہوں، پھر انھوں نے بتایا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ جو شخص آپ پر ظلم کرے، آپ اسے معاف کر دیں اور جو آپ کو کچھ نہ دے آپ اس پر بخشش کریں اور جو آپ سے قطعہ تعلقی کرے آپ اس سے بھی صلح رحمی کریں۔
(فتح الباري: 388/8)
الغرض یہ آیت اخلاق فاضلہ پر مشتمل ایک جامع ہدایت نامہ ہےجس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے سید الانبیاء ؑ کی تربیت کر کے آپ کو تمام اولین وآخریں میں خلق عظیم کے خطاب سے نوازا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
بے شک آپ عمدہ اخلاق پر فائز ہیں۔
(القلم: 4/68)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4643