سنن دارمي
من كتاب البيوع -- خرید و فروخت کے ابواب
72. باب في النَّهْيِ عَنِ الْمُخَابَرَةِ:
مخابرہ کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2651
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ: أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا يَقُولُ: كُنَّا نُخَابِرُ قَبْلَ أَنْ يَنْهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْخِبْرِ بَسَنَتَيْنِ أَوْ ثَلَاثٍ، عَلَى الثُّلُثِ، وَالشَّطْرِ، وَشَيْءٍ مِنْ تِبْنٍ، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَحْرُثْهَا، فَإِنْ كَرِهَ أَنْ يَحْرُثَهَا، فَلْيَمْنَحْهَا أَخَاهُ، فَإِنْ كَرِهَ أَنْ يَمْنَحَهَا أَخَاهُ، فَلْيَدَعْهَا".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخابرہ سے منع کرنے سے پہلے ہم زمین کو کاشت کے لئے دو اور تین سال تک ایک تہائی یا آدھے ساجھے پر دیا کرتے تھے، بھوسے کے عوض بٹائی پر دیتے تھے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس زمین ہو وہ خود اس میں کاشتکاری کرے، اگر اس کو کھیتی کرنا پسند نہ ہو تو اس زمین کو اپنے بھائی کو دے دے، اور اگر اپنے بھائی کو بھی دینا پسند نہ ہو تو اسے پڑا رہنے دے (یعنی کرائے پر نہ چلائے)۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح وأبو الحسن هو أحمد بن عبد الله بن مسلم الحراني والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2657]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابوالحسن کا نام احمد بن عبداللہ بن مسلم حرانی ہے، اور یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2340]، [مسلم 1536/89]، [أبويعلی 1844]، [ابن حبان 4995]، [الحميدي 1318]

وضاحت: (تشریح حدیث 2650)
مخابره: زمین بٹائی پر دینے کو کہتے ہیں، اس کی صورت یہ ہے کہ مزارع اور مالکِ زمین کے درمیان پیداوار کے نصف، ثلث یاریع پر معاملہ طے کیا جائے کہ مزارع اپنی خدمت کے بدلے میں پیداوار کا نصف، تہائی یا چوتھائی حصہ وصول کرے گا، باقی مالکِ زمین کا ہوگا، اسی طرح مزارعہ ہے، اور بعض علماء نے کہا: جب تخم زمین کا مالک دے تو وہ مزارعت ہے، اور جب کام کرنے والا تخم اپنے پاس سے ڈالے تو وہ مخابرہ ہے۔
بہرحال مزارعہ اورمخابرہ دونوں سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا، لیکن اس ممانعت کے باوجود علمائے کرام کے اس بارے میں مختلف اقوال ہیں، بعض نے اس کو جائز کہا اور بعض نے ناجائز کہا ہے، اور اس بارے میں تفصیل یہ ہے کہ بیع مخابرہ مطلقاً ممنوع نہیں بلکہ لوگ زمین کے کسی حصے کی پیداوار کو مزارع کے لئے اور کسی حصے کی پیداوار کو مالکِ زمین کے لئے مخصوص کر لیتے تھے، بسا اوقات مزارع والا حصہ صحیح سلامت رہ جاتا اور مالک والا تباہ ہو جاتا، اور کبھی اس کے برعکس ہو جاتا، اس طرح معاملہ باہمی نزاع اور جھگڑے تک پہنچ جاتا، اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کے امر سے منع فرمایا۔
اس طرح کا طے شدہ معاملہ کہ زمین سے جو پیداوار حاصل ہو اس کو طے شدہ حصہ یا مقدار میں مالکِ زمین اور مزارع تقسیم کریں گے، مثلاً چوتھا یا تیسرا حصۂ پیداوار کاشتکار کا اور بقیہ سارا مالکِ زمین کا، تو اس میں کوئی نہ مضائقہ ہے، نہ حرج، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بذاتِ خود اہلِ خیبر سے اسی اصول پر معاملہ طے فرمایا تھا۔
اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے علاوہ ائمۂ ثلاثہ بٹائی پر زمین دینے کے قائل ہیں۔
اس حدیث میں خود زراعت کرنے کی ترغیب ہے، یا پھر اپنے بھائی کو دیدیں، اور آخری جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ بٹائی پر نہ دیں، لیکن دوسری بہت سی احادیث میں زمین کرائے یا بٹائی پر دینے کی اجازت آئی ہے، اور ممانعت صرف اسی حالت میں ہے کہ جگہ مخصوص کر دی جائے کہ اس جگہ کی کاشت کو کاشتکار لے گا، اور اس کے بہہ جانے یا خراب ہو جانے کا اندیشہ ہو تو مبیع مجہول ہونے کے سبب یہ ناجائز ہوگا۔
مزید تفصیل آگے آرہی ہے۔
اور [مسلم شريف 3935] میں صراحت ہے کہ اپنی زمین بٹائی پر دینے میں کوئی حرج نہیں، ہاں بھائی کو دینا اگر خود کاشتکاری نہ کرے تو افضل ہے۔