صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
4. بَابُ: {إِلاَّ الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ} :
باب: آیت «إلا الذين عاهدتم من المشركين» کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 4657
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ،أَخْبَرَهُ: أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، بَعَثَهُ فِي الْحَجَّةِ الَّتِي أَمَّرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهَا قَبْلَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ فِي رَهْطٍ، يُؤَذِّنُونَ فِي النَّاسِ،أَنْ لَا يَحُجَّنَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ، وَلَا يَطُوفَ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ، فَكَانَ حُمَيْدٌ، يَقُولُ:" يَوْمُ النَّحْرِ يَوْمُ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ، مِنْ أَجْلِ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ".
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد (ابراہیم بن سعد) نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں حمید بن عبدالرحمٰن نے خبر دی اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس حج کے موقع پر جس کا انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر بنایا تھا۔ حجۃ الوداع سے (ایک سال) پہلے 9 ھ میں انہیں بھی ان اعلان کرنے والوں میں رکھا تھا جنہیں لوگوں میں آپ نے یہ اعلان کرنے کے لیے بھیجا تھا کہ آئندہ سال سے کوئی مشرک حج کرنے نہ آئے اور نہ کوئی بیت اللہ کا طواف ننگا ہو کر کرے۔ حمید نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یوم نحر بڑے حج کا دن ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4657  
4657. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے جس حج میں حضرت ابوبکر ؓ کو حجۃ الوداع سے پہلے امیر حج بنا کر بھیجا تھا، اس میں انہوں (حضرت ابوبکر ؓ) نے مجھے چند لوگوں میں روانہ کیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کریں: اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی برہنہ شخص بیت اللہ کا طواف ہی کرے۔ (راوی حدیث) حضرت حمید، سیدنا ابوہریرہ ؓ سے مروی اس حدیث کی بنا پر کہا کرتے تھے کہ نحر کا دن حج اکبر کا دن ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4657]
حدیث حاشیہ:
لوگوں میں مشہور ہے کہ جمعہ کے دن حج ہو تو وہ حج اکبر ہے یہ صحیح نہیں ہے۔
اس حدیث کی رو سے یوم النحر کا دن حج اکبر کا دن ہے۔
یوم التر ویہ میں حضرت صدیق اکبر ؓ نے خطبہ دیا اور حضرت علی ؓ نے سورت براءت کو پڑھ کر سنایا تھا۔
یہ اعلان 9ھ میں کیا گیا تھا۔
(فتح)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4657   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4657  
4657. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے جس حج میں حضرت ابوبکر ؓ کو حجۃ الوداع سے پہلے امیر حج بنا کر بھیجا تھا، اس میں انہوں (حضرت ابوبکر ؓ) نے مجھے چند لوگوں میں روانہ کیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کریں: اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی برہنہ شخص بیت اللہ کا طواف ہی کرے۔ (راوی حدیث) حضرت حمید، سیدنا ابوہریرہ ؓ سے مروی اس حدیث کی بنا پر کہا کرتے تھے کہ نحر کا دن حج اکبر کا دن ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4657]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کے مطابق دس ذی الحجہ کو حج اکبر یعنی قربانی کے دن یہ اعلان پہلے سیدنا ابو بکر ؓ نے منیٰ کے مقام پر کیا۔
پھر مقامی روایات کے مطابق حضرت على ؓ نے یہی اعلان کیا۔

مشرکین کی کئی قسمیں تھیں جن مشرکین سے مسلمانوں کا کوئی معاہدہ صلح نہیں تھا چار ماہ کی مہلت دی گئی اس میں بتایا گیا کہ وہ مسلمانوں سے جنگ کے لیے تیار ہیں یا یہ ملک چھوڑ کر کہیں اور جانا چاہتے ہیں یا اسلام لانا چاہتے ہیں؟ اگر وہ اسلام لے آئیں تو ان کے لیے دنیا و آخرت کے اعتبار سے بہتر ہو گا۔
اس دفعہ میں وہ مشرک قبائل بھی شامل تھے جو صلح کا معاہدہ تو کر لیتے تھے مگر صلح کی شرائط کچھ ایسی طے کرتے کہ ان کے لیے فتنے اور عہد توڑنے کی گنجائش باقی رہتی۔
یعنی ایسے قبائل جن کی طرف سے مسلمانوں کو عہد شکنی یا فتنہ انگیزی کا خطرہ تھا ان کا عہد بھی اس اعلان براءت کے ذریعے سے ختم کردیا گیا، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
"اگر آپ کو کسی قوم سے عہد شکنی کا خطرہ ہو تو برابری کی سطح پر ان کا معاہدہ ان کی طرف پھینک دو۔
" (الأنفال: 58/8)
البتہ صاف دل سے معاہدہ کرنے والے مشرک قبائل کو کچھ رعایت دی گئی جس کی وضاحت ہم کر آئے ہیں۔

اس حدیث کے آخر میں حج اکبر کے دن کے متعلق وضاحت ہے کہ وہ قربانی کا دن ہے چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت علی ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے حج اکبر کے دن کے متعلق سوال کیا تو آپ نے جواب دیا کہ وہ قربانی کا دن ہے۔
(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3088)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4657