صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
9. بَابُ قَوْلِهِ: {ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ} :
باب: آیت کی تفسیر ”جب کہ دو میں سے ایک وہ تھے دونوں غار میں (موجود) تھے جب وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھا کہ فکر نہ کر اللہ پاک ہمارے ساتھ ہے“۔
حدیث نمبر: 4666
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ: دَخَلْنَا عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ،فَقَالَ:" أَلَا تَعْجَبُونَ لِابْنِ الزُّبَيْرِ، قَامَ فِي أَمْرِهِ هَذَا"، فَقُلْتُ: لَأُحَاسِبَنَّ نَفْسِي لَهُ مَا حَاسَبْتُهَا لِأَبِي بَكْرٍ وَلَا لِعُمَرَ، وَلَهُمَا كَانَا أَوْلَى بِكُلِّ خَيْرٍ مِنْهُ، وَقُلْتُ: ابْنُ عَمَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَابْنُ الزُّبَيْرِ، وَابْنُ أَبِي بَكْرٍ، وَابْنُ أَخِي خَدِيجَةَ، وَابْنُ أُخْتِ عَائِشَةَ، فَإِذَا هُوَ يَتَعَلَّى عَنِّي، وَلَا يُرِيدُ ذَلِكَ، فَقُلْتُ: مَا كُنْتُ أَظُنُّ أَنِّي أَعْرِضُ هَذَا مِنْ نَفْسِي فَيَدَعُهُ، وَمَا أُرَاهُ يُرِيدُ خَيْرًا، وَإِنْ كَانَ لَا بُدَّ لَأَنْ يَرُبَّنِي بَنُو عَمِّي، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَرُبَّنِي غَيْرُهُمْ".
ہم سے محمد بن عبید بن میمون نے بیان کیا، کہا ہم سے عیسیٰ بن یونس نے، ان سے عمر بن سعید نے، انہیں ابن ابی ملیکہ نے خبر دی کہ ہم ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے کہا کہ ابن زبیر پر تمہیں حیرت نہیں ہوتی۔ وہ اب خلافت کے لیے کھڑے ہو گئے ہیں تو میں نے ارادہ کر لیا کہ ان کے لیے محنت مشقت کروں گا کہ ایسی محنت اور مشقت میں نے ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے لیے بھی نہیں کی۔ حالانکہ وہ دونوں ان سے ہر حیثیت سے بہتر تھے۔ میں نے لوگوں سے کہا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی کی اولاد میں سے ہیں۔ زبیر رضی اللہ عنہ کے بیٹے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نواسے، خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھائی کے بیٹے، عائشہ رضی اللہ عنہا کی بہن کے بیٹے۔ لیکن عبداللہ بن زبیر نے کیا کیا وہ مجھ سے غرور کرنے لگے۔ انہوں نے نہیں چاہا کہ میں ان کے خاص مصاحبوں میں رہوں (اپنے دل میں کہا) مجھ کو ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ میں تو ان سے ایسی عاجزی کروں گا اور وہ اس پر بھی مجھ سے راضی نہ ہوں گے۔ خیر اب مجھے امید نہیں کہ وہ میرے ساتھ بھلائی کریں گے جو ہونا تھا وہ ہوا اب بنی امیہ جو میرے چچا زاد بھائی ہیں اگر مجھ پر حکومت کریں تو یہ مجھ کو اوروں کے حکومت کرنے سے زیادہ پسند ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4666  
4666. حضرت ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم حضرت ابن عباس ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا: ابن زبیر ؓ کے معاملے میں تم لوگوں کو حیرت نہیں ہوتی، اب وہ خلافت کے لیے کھڑے ہو گئے ہیں؟ میں نے دل میں ارادہ کر لیا ہے کہ اب میں ان کے لیے محنت و مشقت کروں گا۔ ایسی محنت تو میں نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کے لیے بھی نہیں کی، حالانکہ یہ دونوں حضرات ان سے ہر اعتبار سے بہتر تھے۔ میں نے (لوگوں سے) کہا: وہ نبی ﷺ کی پھوپھی کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت زبیر ؓ کے بیٹے، حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے نواسے، حضرت خدیجہ‬ ؓ ک‬ے بھتیجے اور حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ے بھانجے ہیں۔ لیکن انہوں نے کیا کیا ہے کہ وہ مجھ سے بڑا بننے کی کوشش میں ہیں۔ وہ مجھے کسی خاطر میں نہیں لائے۔ میں نے (دل میں) کہا: مجھے ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ میں تو ان سے ایسی عاجزی کروں اور وہ اس پر بھی مجھ سے راضی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4666]
حدیث حاشیہ:
ان جملہ روایات میں کسی نہ کسی طرح حضرت صدیق اکبر ؓ کا ذکر خیر ہوا ہے۔
اس آیت کے تحت ان احادیث کو لانے کا یہی مقصد ہے۔
صحابہ کرام کے ایسے باہمی مذاکرات جو نقل ہو ئے ہیں وہ اس بنا پر قابل معافی ہیں کہ وہ بھی سب انسان ہی تھے۔
معصوم عن الخطاء نہیں تھے۔
ہم کو ان سب کے لئے دعائے خیر کا حکم دیا گیا ہے۔
﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ﴾ (آمین)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4666   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4666  
4666. حضرت ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم حضرت ابن عباس ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا: ابن زبیر ؓ کے معاملے میں تم لوگوں کو حیرت نہیں ہوتی، اب وہ خلافت کے لیے کھڑے ہو گئے ہیں؟ میں نے دل میں ارادہ کر لیا ہے کہ اب میں ان کے لیے محنت و مشقت کروں گا۔ ایسی محنت تو میں نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کے لیے بھی نہیں کی، حالانکہ یہ دونوں حضرات ان سے ہر اعتبار سے بہتر تھے۔ میں نے (لوگوں سے) کہا: وہ نبی ﷺ کی پھوپھی کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت زبیر ؓ کے بیٹے، حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے نواسے، حضرت خدیجہ‬ ؓ ک‬ے بھتیجے اور حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ے بھانجے ہیں۔ لیکن انہوں نے کیا کیا ہے کہ وہ مجھ سے بڑا بننے کی کوشش میں ہیں۔ وہ مجھے کسی خاطر میں نہیں لائے۔ میں نے (دل میں) کہا: مجھے ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ میں تو ان سے ایسی عاجزی کروں اور وہ اس پر بھی مجھ سے راضی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4666]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں بھی ابن عباس ؓ نے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کا شکوہ کیا ہے کہ میری خیر سگالی کے باوجود وہ مجھ سے منہ موڑتے ہیں۔
ان کی یہ خواہش نہیں کے میں ان کا مقرب بنوں۔
ایسے حالات میں میری بھی یہ خواہش نہیں کہ میں ان کے حق میں اخلاص کا اظہار کروں اور وہ اس کی قدر نہ کریں۔
اگر یہی بات ہےتو پھر میں اپنا وزن، بنوامیہ کے پلڑے میں ڈالتاہوں کیونکہ وہ میرے چچا کے بیٹے ہیں اور میرا ان کی اطاعت کرلینا دوسروں کی اطاعت کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔
نوٹ:
۔
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آسمان کے درخشاں ستارے اور وحی کے چشم دید گواہ ہیں لیکن وہ انسان تھے، فرشتے یا انبیاء ؑ نہیں تھے خواہ حضرت ابن عباس ؓ یا عبداللہ بن زبیر ؓ دونوں ہمارے لیے قابل احترام ہیں، ان کے آپس میں جھگڑوں کے متعلق خاموشی اختیار کرنے میں ہمارے لیے عافیت ہے۔
اس سلسلے میں ہمارے لیے حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ بہترین نمونہ ہیں۔
ان سے اہل صفین کے بارے میں سوال ہوا تو انھوں نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے ان کے خون سے میرے ہاتھوں کو محفوظ رکھا، اب میں نہیں چاہتا ہوں کہ اپنی زبان کو اس میں ملوث کروں۔
(موافقات للشاطبي: 320/4)
اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان حضرات کے لیے ان الفاظ میں دعا کرنے کا حکم دیاہے:
"اے ہمارے پروردگار! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ایمان داروں کے بارے میں ہمارے دل میں کینہ نہ ڈال۔
اے ہمارے پروردگار! بے شک تو شفقت کرنے والا نہایت مہربان ہے۔
" (الحشر: 10/59)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4666