صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
12. بَابُ قَوْلِهِ: {اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً} :
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! آپ ان کے لیے استغفار کریں یا نہ کریں اگر آپ ان کے لیے ستر مرتبہ بھی استغفار کریں گے (جب بھی اللہ انہیں نہیں بخشے گا)“۔
حدیث نمبر: 4670
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ، جَاءَ ابْنُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ أَنْ يُعْطِيَهُ قَمِيصَهُ يُكَفِّنُ فِيهِ أَبَاهُ، فَأَعْطَاهُ، ثُمَّ سَأَلَهُ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَقَامَ عُمَرُ، فَأَخَذَ بِثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تُصَلِّي عَلَيْهِ وَقَدْ نَهَاكَ رَبُّكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا خَيَّرَنِي اللَّهُ، فَقَالَ: اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً سورة التوبة آية 80، وَسَأَزِيدُهُ عَلَى السَّبْعِينَ"، قَالَ: إِنَّهُ مُنَافِقٌ، قَالَ: فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ سورة التوبة آية 84.
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے ابواسامہ نے، ان سے عبیداللہ بن عمری نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ جب عبداللہ بن ابی (منافق) کا انتقال ہوا تو اس کے لڑکے عبداللہ بن عبداللہ (جو پختہ مسلمان تھے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ اپنی قمیص ان کے والد کے کفن کے لیے عنایت فرما دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قمیص عنایت فرمائی۔ پھر انہوں نے عرض کی کہ آپ نماز جنازہ بھی پڑھا دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز جنازہ پڑھانے کے لیے بھی آگے بڑھ گئے۔ اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن پکڑ لیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کی نماز جنازہ پڑھانے جا رہے ہیں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے منع بھی فرما دیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے فرمایا ہے «استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة‏» کہ آپ ان کے لیے استغفار کریں خواہ نہ کریں۔ اگر آپ ان کے لیے ستر بار بھی استغفار کریں گے (تب بھی اللہ انہیں نہیں بخشے گا)۔ اس لیے میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا۔ (ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ زیادہ استغفار کرنے سے معاف کر دے) عمر رضی اللہ عنہ بولے لیکن یہ شخص تو منافق ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا «ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره‏» کہ اور ان میں سے جو کوئی مر جائے اس پر کبھی بھی نماز نہ پڑھئے اور نہ اس کی قبر پر کھڑا ہوئیے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4670  
4670. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب عبداللہ بن ابی مر گیا تو اس کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عبداللہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ آپ اپنا کُرتا عنایت فرمائیں تاکہ وہ اپنے باپ کو اس میں کفن دیں۔ آپ نے اسے اپنا کُرتا دے دیا۔ پھر اس نے درخواست کی کہ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ اس کا جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو سیدنا عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کا دامن تھام لیا اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اس پر نماز جنازہ پڑھتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالٰی نے آپ کو ایسے لوگوں کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالٰی نے مجھے اختیار دیا ہے اور فرمایا ہے: تو ان کے لیے دعائے مغفرت کرے یا نہ کرے، اگر تو ستر مرتبہ بھی ان کے لیے استغفار کرے تو بھی اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا۔ میں ایسا کروں گا کہ ستر مرتبہ سے زیادہ اس کے لیے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4670]
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میرا کرتہ اس کے کچھ کام آنے والا نہیں ہے لیکن مجھے امید ہے کہ میرے اس عمل سے اس کی قوم کے ہزار آدمی مسلمان ہو جائیں گے۔
ایسا ہی ہوا عبد اللہ بن ابی کی قوم کے بہت سے لوگ مسلمان ہو گئے۔
آپ کے اخلاق کا ان پر بہت بڑا اثر ہوا۔
ایک روایت میں ہے کہ عبد اللہ بن ابی ابھی زندہ تھا کہ اس نے آنحضرت ﷺ کو بلوایا اور آپ سے کرتہ مانگا اور دعا کی درخواست کی۔
حافظ صاحب نقل کرتے ہیں:
لَمَّا مَرِضَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ جَاءَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمَهُ فَقَالَ قَدْ فَهِمْتُ مَا تَقُولُ فَامْنُنْ عَلَيَّ فَكَفِّنِّي فِي قَمِيصِكَ وَصَلِّ عَلَيَّ فَفَعَلَ وَكَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ أَرَادَ بِذَلِكَ دَفْعُ الْعَارِ عَنْ وَلَدِهِ وَعَشِيرَتِهِ بَعْدَ مَوْتِهِ فَأَظْهَرَ الرَّغْبَةَ فِي صَلَاةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ وَوَقَعَتْ إِجَابَتُهُ إِلَى سُؤَالِهِ بِحَسَبِ مَا ظَهَرَ مِنْ حَالِهِ إِلَى أَنْ كَشَفَ اللَّهُ الْغِطَاءَ عَنْ ذَلِكَ كَمَا سَيَأْتِي وَهَذَا مِنْ أَحْسَنِ الْأَجْوِبَةِ فِيمَا يَتَعَلَّقُ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ۔
(فتح الباری)
عبداللہ بن ابی نے آنحضرت ﷺ سے جنازہ اور کرتہ کے لئے خود درخواست کی تھی تاکہ بعد میں اس کی اولاد اور خاندان پر عار نہ ہو۔
رسول کریم ﷺ پر اس کی مصلحتوں کا کشف ہوگیا تھا، اس لئے آپ ﷺ نے اس کی درخواست کو قبول فرمایا، اس عبارت کا یہی خلاصہ ہے۔
مصلحتوں کا ذکر ابھی پیچھے ہو چکا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4670   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4670  
4670. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب عبداللہ بن ابی مر گیا تو اس کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عبداللہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ آپ اپنا کُرتا عنایت فرمائیں تاکہ وہ اپنے باپ کو اس میں کفن دیں۔ آپ نے اسے اپنا کُرتا دے دیا۔ پھر اس نے درخواست کی کہ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ اس کا جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو سیدنا عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کا دامن تھام لیا اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اس پر نماز جنازہ پڑھتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالٰی نے آپ کو ایسے لوگوں کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالٰی نے مجھے اختیار دیا ہے اور فرمایا ہے: تو ان کے لیے دعائے مغفرت کرے یا نہ کرے، اگر تو ستر مرتبہ بھی ان کے لیے استغفار کرے تو بھی اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا۔ میں ایسا کروں گا کہ ستر مرتبہ سے زیادہ اس کے لیے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4670]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے رئیس المنافقین کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عبداللہ کی درخواست پر تین کام کیے:
۔
رئیس المنافقین کے لیے اپنی قمیص دی تاکہ اس میں کفن دیاجائے۔
۔
اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈالا۔

آپ نے تین وجوہ کی بنا پر یہ کام کیے:
۔
رسول اللہ ﷺ کی طبیعت میں نرمی رحم اور عفو درگزر کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔
۔
بدر کے قیدیوں میں آپ کے چچا حضرت عباس ؓ بدن سے ننگے تھے چونکہ ان کا قد لمبا تھا، اس لیے رئیس المنافقین سے قمیص مانگ کردی۔
آپ یہ چاہتے تھے کہ قمیص دے کر اس احسان کا بدلہ چکا دیں۔
۔
ایسے حالات میں رئیس المنافقین کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عبداللہ ؓ کی دل جوئی اور تالیف قلبی مقصود تھی تاکہ وہ شکستہ دل نہ ہو۔

سیدناعمر ؓ نے اس آیت سے استنباط کرتے ہوئے عرض کی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان منافقین کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع کردیا ہے کیونکہ ستر مرتبہ استغفار کرنے سے بھی اس کی معافی ممکن نہیں تو جنازہ بھی معافی کی درخواست ہوتی ہےاسے ادا کرنے کا کیا فائدہ ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر ؓ کی رائے کے مطابق وحی نازل فرمائی۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اب منافقین سے نرم قسم کی پالیسی اختیار کرنے کا دور بیت چکا ہے اور ان سے سخت رویہ اختیار کرنا عین منشائے الٰہی کے مطابق ہے۔

واضح رہے کہ رئیس المنافقین کے بیٹے حضرت عبداللہ ؓ نے اس لیے درخواست نہیں کی تھی کہ اس کا باپ نفاق سے تائب ہوچکا تھا بلکہ یہ درخواست اس لیے تھی کہ مرنے کے بعد لوگ اسے اور اس کے قبیلے کو اس کے نفاق کا طعنہ نہ دیں، بہرحال اس کے بیٹے کو اس بات کا علم تھا کہ وہ اب بھی منافق ہے اور حالت نفاق ہی میں مرا ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4670