صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
12. بَابُ قَوْلِهِ: {اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً} :
باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! آپ ان کے لیے استغفار کریں یا نہ کریں اگر آپ ان کے لیے ستر مرتبہ بھی استغفار کریں گے (جب بھی اللہ انہیں نہیں بخشے گا)“۔
حدیث نمبر: 4671
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، قَالَ غَيْرُهُ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ: لَمَّا مَاتَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ، دُعِيَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَلَمَّا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَثَبْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتُصَلِّي عَلَى ابْنِ أُبَيٍّ، وَقَدْ قَالَ: يَوْمَ كَذَا، كَذَا، وَكَذَا، قَالَ: أُعَدِّدُ عَلَيْهِ قَوْلَهُ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ أَخِّرْ: عَنِّي يَا عُمَرُ، فَلَمَّا أَكْثَرْتُ عَلَيْهِ، قَالَ:" إِنِّي خُيِّرْتُ فَاخْتَرْتُ، لَوْ أَعْلَمُ أَنِّي إِنْ زِدْتُ عَلَى السَّبْعِينَ يُغْفَرْ لَهُ لَزِدْتُ عَلَيْهَا"، قَالَ: فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ انْصَرَفَ، فَلَمْ يَمْكُثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى نَزَلَتِ الْآيَتَانِ مِنْ بَرَاءَةَ وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا إِلَى قَوْلِهِ وَهُمْ فَاسِقُونَ سورة التوبة آية 84، قَالَ: فَعَجِبْتُ بَعْدُ مِنْ جُرْأَتِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے اور ان کے علاوہ (ابوصالح عبداللہ بن صالح) نے بیان کیا، کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے، ان سے عمر رضی اللہ عنہ نے جب عبداللہ بن ابی ابن سلول کی موت ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے کہا گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو میں جلدی سے خدمت نبوی میں پہنچا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ ابن ابی (منافق) کی نماز جنازہ پڑھانے لگے حالانکہ اس نے فلاں فلاں دن اس اس طرح کی باتیں (اسلام کے خلاف) کی تھیں؟ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں اس کی کہی ہوئی باتیں ایک ایک کر کے پیش کرنے لگا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم کر کے فرمایا کہ عمر! میرے پاس سے ہٹ جاؤ (اور صف میں جا کے کھڑے ہو جاؤ)۔ میں نے اصرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اختیار دیا گیا ہے۔ اس لیے میں نے (اس کے لیے استغفار کرنے اور اس کی نماز جنازہ پڑھانے ہی کو) پسند کیا، اگر مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے سے اس کی مغفرت ہو جائے گی تو میں ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کروں گا۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور واپس تشریف لائے، تھوڑی دیر ابھی ہوئی تھی کہ سورۃ برات کی دو آیتیں نازل ہوئیں «ولا تصل على أحد منهم مات أبدا‏» کہ ان میں سے جو کوئی مر جائے اس پر کبھی بھی نماز نہ پڑھئے۔ آخر آیت «وهم فاسقون‏» تک۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بعد میں مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی اس درجہ جرات پر خود بھی حیرت ہوئی اور اللہ اور اس کے رسول بہتر جاننے والے ہیں۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3097  
´سورۃ التوبہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی الله عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ جب عبداللہ بن ابی (منافقوں کا سردار) مرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے بلائے گئے، آپ کھڑے ہو کر اس کی طرف بڑھے اور اس کے سامنے کھڑے ہو کر نماز پڑھانے کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ میں لپک کر آپ کے سینے کے سامنے جا کھڑا ہوا، میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا آپ اللہ کے دشمن عبداللہ بن ابی کی نماز پڑھنے جا رہے ہیں جس نے فلاں فلاں دن ایسا اور ایسا کہا تھا؟ وہ اس کے بےادبی و بدتمیزی کے دن گن گن کر بیان کرنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ عل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3097]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ان (منافقوں) کے لیے مغفرت طلب کرو یا نہ کرو اگرتم ان کے لیے ستر بار بھی مغفرت طلب کرو گے تو بھی وہ انہیں معاف نہ کرے گا۔
(التوبة: 80)

2؎:
یعنی کہ میری یہ جرأت حق کے خاطر تھی بے ادبی کے لیے نہیں۔

3؎:
ان میں سے کسی (منافق) کی جو مر جائے نماز جنازہ کبھی بھی نہ پڑھو،
اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہو۔
(التوبة: 84)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3097   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4671  
4671. حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب عبداللہ بن ابی بن سلول مرا تو اس کا جنازہ پڑھانے کے لیے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی گئی۔ جب رسول اللہ ﷺ اس کا جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو میں جلدی سے آپ کی خدمت میں پہنچا اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ ابن ابی (منافق) کی نماز جنازہ پڑھانے لگے ہیں، حالانکہ اس نے فلاں دن، اس طرح کی باتیں کی تھیں؟ حضرت عمر ؓ نے کہا: میں اس کی بکواسات ایک ایک کر کے آپ کے سامنے بیان کرنے لگا لیکن رسول اللہ ﷺ نے مسکرا کر فرمایا: عمر! میرے پاس سے ایک طرف ہٹ جاؤ۔ میں نے جب اصرار کیا تو آپ نے فرمایا: مجھے اختیار دیا گیا ہے، اس لیے میں اپنے اختیار کو استعمال کرنے لگا ہوں۔ اگر مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے سے اس کی مغفرت ہو جائے گی تو میں ستر مرتبہ سے زیادہ مغفرت طلب کروں گا۔ فرمایا: بالآخر رسول اللہ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4671]
حدیث حاشیہ:
اللہ نے حضرت عمر ؓ کی رائے کے موافق حکم دیا۔
کیا کہنا ہے حضرت عمر ؓ عجیب صائب الرائے تھے۔
انتظامی امور اور سیاست دانی میں اپنا نظیر نہیں رکھتے تھے۔
آنحضرت ﷺ کے پیش نظر ایک مصلحت تھی جس کا بیان پیچھے ہوچکا ہے۔
بعد میں صریح ممانعت نازل ہونے کے بعد آپ نے کسی منافق کا جنازہ نہیں پڑھایا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4671   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4671  
4671. حضرت عمر بن خطاب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب عبداللہ بن ابی بن سلول مرا تو اس کا جنازہ پڑھانے کے لیے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی گئی۔ جب رسول اللہ ﷺ اس کا جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو میں جلدی سے آپ کی خدمت میں پہنچا اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ ابن ابی (منافق) کی نماز جنازہ پڑھانے لگے ہیں، حالانکہ اس نے فلاں دن، اس طرح کی باتیں کی تھیں؟ حضرت عمر ؓ نے کہا: میں اس کی بکواسات ایک ایک کر کے آپ کے سامنے بیان کرنے لگا لیکن رسول اللہ ﷺ نے مسکرا کر فرمایا: عمر! میرے پاس سے ایک طرف ہٹ جاؤ۔ میں نے جب اصرار کیا تو آپ نے فرمایا: مجھے اختیار دیا گیا ہے، اس لیے میں اپنے اختیار کو استعمال کرنے لگا ہوں۔ اگر مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے سے اس کی مغفرت ہو جائے گی تو میں ستر مرتبہ سے زیادہ مغفرت طلب کروں گا۔ فرمایا: بالآخر رسول اللہ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4671]
حدیث حاشیہ:

ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے قبر سے نکلوایا اور اپنے گھٹنوں پر رکھ کر اپنا لعاب دہن اس کے منہ کولگایا اور اسے اپنی قمیص پہنائی۔
(صحیح البخاری الجنائز حدیث 1350۔
)

لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی عدم مغفرت کے متعلق صاف صاف اعلان فرمادیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ جو ایمان سے محروم ہواسے دنیا کی بڑی سے بڑی شخصیت کی دعائے مغفرت اور اس کی سفارش بھی کوئی فائدہ نہ پہنچاسکے گی۔

رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کی موت زی قعدہ 9 ہجری غزوہ تبوک سے واپسی کے بعد واقع ہوئی۔
یہ بدبخت غزوہ تبوک میں شامل نہیں ہوا تھا۔
قرآن کریم کی یہ آیت:
اگر یہ منافقین تمہارے ساتھ جاتے بھی تو تمہارے لیے سوائے فساد کے اور کچھ نہ کرتے۔
(التوبة: 84: 9)
عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھ غزوہ تبوک سے پیچھے رہنے والوں کے متعلق نازل ہوئی۔

قارئین کرام کو یہ حقیقت مد نظر رکھنی چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ بھی سورہ توبہ کی آیت: 80 کا وہی مفہوم سمجھتے تھے جو حضرت عمر ؓ نے سمجھا تھا بلکہ آپ کو یقین تھا کہ ہمارے کسی عمل سے اس منافق کی مغفرت نہیں ہوگی مگرآیت کے ظاہر سے آپ کو اختیاردیاگیا تھا اور کسی دوسری آیت سے اس کی ممانعت نہیں اتری تھی، دوسری طرف ایک منافق کے احسان سے اس دنیا میں نجات حاصل کرنا بھی مقصود تھا اور ایک مخلص ساتھی اس کے بیٹے کی دلجوئی بھی پیش نظر تھی، اس کے علاوہ اس معاملے میں دوسرے کافروں کے اسلام کے قریب ہونے کی توقع تھی، اس لیے ان مصلحتوں کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ نے اس منافق کی نماز جنازہ پڑھانے کو ترجیح دی اور حضر ت عمر ؓ نے یہ خیال کیا کہ جب آیت: 80 سے یہ ثابت ہوگیا کہ مغفرت نہیں ہوگی تو اس کے لیے نماز جنازہ پڑھ کر جائے مغفرت کرنا ایک بے فائدہ اور بے کار فعل ہے جو شان نبوت کے خلاف ہے، اسی کو آپ نے ممانعت سے تعبیر کیا، لیکن رسول اللہ ﷺ اگرچہ اس فعل کو فی نفسہ مفید نہ سمجھتے تھے مگردوسروں کے اسلام لانے کا فائدہ پیش نظر تھا، اس لیے آپ کے نزدیک یہ فعل بے فائدہ نہ تھا۔

اس توجیہ سے نہ تورسول اللہ ﷺ کے عمل پر کوئی اشکال رہتاہے اور نہ فاروقِ اعظم ؓ کے قول پر ہی کوئی اعتراض ہوتا ہے۔
بہرحال رسول اللہ ﷺ نے اس کے بعد کسی منافق کا جنازہ نہیں پڑھا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوکر دعائے مغفرت ہی کی ہے۔
(فتح الباري: 427/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4671