صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
18. بَابُ: {وَعَلَى الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنْفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَنْ لاَ مَلْجَأَ مِنَ اللَّهِ إِلاَّ إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور ان تینوں پر بھی اللہ نے (توجہ فرمائی) جن کا مقدمہ پیچھے کو ڈال دیا گیا تھا، یہاں تک کہ جب زمین ان پر باوجود اپنی فراخی کے تنگ ہونے لگی اور وہ خود اپنی جانوں سے تنگ آ گئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ سے کہیں پناہ نہیں مل سکتی بجز اسی کی طرف کے، پھر اس نے ان پر رحمت سے توجہ فرمائی تاکہ وہ بھی توبہ کر کے رجوع کریں۔ بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا بڑا ہی مہربان ہے“۔
حدیث نمبر: 4677
حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ ابْنُ أَبِي شُعَيْبٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَعْيَنَ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ رَاشِدٍ، أَنَّ الزُّهْرِيَّ حَدَّثَهُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، وَهُوَ أَحَدُ الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ تِيبَ عَلَيْهِمْ: أَنَّهُ لَمْ يَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا قَطُّ، غَيْرَ غَزْوَتَيْنِ: غَزْوَةِ الْعُسْرَةِ، وَغَزْوَةِ بَدْرٍ، قَالَ: فَأَجْمَعْتُ صِدْقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضُحًى، وَكَانَ قَلَّمَا يَقْدَمُ مِنْ سَفَرٍ سَافَرَهُ إِلَّا ضُحًى، وَكَانَ يَبْدَأُ بِالْمَسْجِدِ، فَيَرْكَعُ رَكْعَتَيْنِ، وَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كَلَامِي، وَكَلَامِ صَاحِبَيَّ، وَلَمْ يَنْهَ عَنْ كَلَامِ أَحَدٍ مِنَ الْمُتَخَلِّفِينَ غَيْرِنَا، فَاجْتَنَبَ النَّاسُ كَلَامَنَا، فَلَبِثْتُ كَذَلِكَ حَتَّى طَالَ عَلَيَّ الْأَمْرُ، وَمَا مِنْ شَيْءٍ أَهَمُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَمُوتَ فَلَا يُصَلِّي عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ يَمُوتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَكُونَ مِنَ النَّاسِ بِتِلْكَ الْمَنْزِلَةِ، فَلَا يُكَلِّمُنِي أَحَدٌ مِنْهُمْ وَلَا يُصَلِّي وَلَا يُسَلِّمُ عَلَيَّ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَوْبَتَنَا عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ بَقِيَ الثُّلُثُ الْآخِرُ مِنَ اللَّيْلِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ أُمِّ سَلَمَةَ، وَكَانَتْ أُمُّ سَلَمَةَ مُحْسِنَةً فِي شَأْنِي، مَعْنِيَّةً فِي أَمْرِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أُمَّ سَلَمَةَ، تِيبَ عَلَى كَعْبٍ"، قَالَتْ: أَفَلَا أُرْسِلُ إِلَيْهِ فَأُبَشِّرَهُ؟ قَالَ:" إِذًا يَحْطِمَكُمُ النَّاسُ فَيَمْنَعُونَكُمُ النَّوْمَ سَائِرَ اللَّيْلَةِ"، حَتَّى إِذَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْفَجْرِ، آذَنَ بِتَوْبَةِ اللَّهِ عَلَيْنَا، وَكَانَ إِذَا اسْتَبْشَرَ اسْتَنَارَ وَجْهُهُ حَتَّى كَأَنَّهُ قِطْعَةٌ مِنَ الْقَمَرِ، وَكُنَّا أَيُّهَا الثَّلَاثَةُ الَّذِينَ خُلِّفُوا عَنِ الْأَمْرِ الَّذِي قُبِلَ مِنْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ اعْتَذَرُوا، حِينَ أَنْزَلَ اللَّهُ لَنَا التَّوْبَةَ، فَلَمَّا ذُكِرَ الَّذِينَ كَذَبُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمُتَخَلِّفِينَ وَاعْتَذَرُوا بِالْبَاطِلِ، ذُكِرُوا بِشَرِّ مَا ذُكِرَ بِهِ أَحَدٌ، قَالَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ: يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ قُلْ لا تَعْتَذِرُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبَارِكُمْ وَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ سورة التوبة آية 94 الْآيَةَ.
مجھ سے محمد بن نصر نیشاپوری نے بیان کیا، کہا ہم سے احمد بن ابی شعیب نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ بن اعین نے بیان کیا، کہا ہم سے اسحاق بن راشد نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے خبر دی، ان سے ان کے والد عبداللہ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا۔ وہ ان تین صحابہ میں سے تھے جن کی توبہ قبول کی گئی تھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ دو غزووں، غزوہ عسرت (یعنی غزوہ تبوک) اور غزوہ بدر کے سوا اور کسی غزوے میں کبھی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانے سے نہیں رکا تھا۔ انہوں نے بیان کیا چاشت کے وقت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (غزوہ سے واپس تشریف لائے) تو میں نے سچ بولنے کا پختہ ارادہ کر لیا اور آپ کا سفر سے واپس آنے میں معمول یہ تھا کہ چاشت کے وقت ہی آپ (مدینہ) پہنچتے تھے اور سب سے پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے اور دو رکعت نماز پڑھتے (بہرحال) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اور میری طرح عذر بیان کرنے والے دو اور صحابہ سے دوسرے صحابہ کو بات چیت کرنے سے منع کر دیا۔ ہمارے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ (جو ظاہر میں مسلمان تھے) اس غزوے میں شریک نہیں ہوئے لیکن آپ نے ان میں سے کسی سے بھی بات چیت کی ممانعت نہیں کی تھی۔ چنانچہ لوگوں نے ہم سے بات چیت کرنا چھوڑ دیا۔ میں اسی حالت میں ٹھہرا رہا۔ معاملہ بہت طول پکڑتا جا رہا تھا۔ ادھر میری نظر میں سب سے اہم معاملہ یہ تھا کہ اگر کہیں (اس عرصہ میں) میں مر گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر نماز جنازہ نہیں پڑھائیں گے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو جائے تو افسوس لوگوں کا یہی طرز عمل میرے ساتھ پھر ہمیشہ کے لیے باقی رہ جائے گا، نہ مجھ سے کوئی گفتگو کرے گا اور نہ مجھ پر نماز جنازہ پڑھے گا۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ کی بشارت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وقت نازل کی جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تشریف رکھتے تھے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا مجھ پر بڑا احسان و کرم تھا اور وہ میری مدد کیا کرتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ام سلمہ! کعب کی توبہ قبول ہو گئی۔ انہوں نے عرض کیا۔ پھر میں ان کے یہاں کسی کو بھیج کر یہ خوشخبری نہ پہنچوا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ خبر سنتے ہی لوگ جمع ہو جائیں گے اور ساری رات تمہیں سونے نہیں دیں گے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھنے کے بعد بتایا کہ اللہ نے ہماری توبہ قبول کر لی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ خوشخبری سنائی تو آپ کا چہرہ مبارک منور ہو گیا جیسے چاند کا ٹکڑا ہو اور (غزوہ میں نہ شریک ہونے والے دوسرے لوگوں سے) جنہوں نے معذرت کی تھی اور ان کی معذرت قبول بھی ہو گئی تھی۔ ہم تین صحابہ کا معاملہ بالکل مختلف تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ قبول ہونے کے متعلق وحی نازل کی، لیکن جب ان دوسرے غزوہ میں شریک نہ ہونے والے لوگوں کا ذکر کیا، جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھوٹ بولا تھا اور جھوٹی معذرت کی تھی تو اس درجہ برائی کے ساتھ کیا کہ کسی کا بھی اتنی برائی کے ساتھ ذکر نہ کیا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا «يعتذرون إليكم إذا رجعتم إليهم قل لا تعتذروا لن نؤمن لكم قد نبأنا الله من أخباركم وسيرى الله عملكم ورسوله‏» کہ یہ لوگ تمہارے سب کے سامنے عذر پیش کریں گے، جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے تو آپ کہہ دیں کہ بہانے نہ بناؤ ہم ہرگز تمہاری بات نہ مانیں گے! بیشک ہم کو اللہ تمہاری خبر دے چکا ہے اور عنقریب اللہ اور اس کا رسول تمہارا عمل دیکھ لیں گے۔ آخر آیت تک۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4677  
4677. حضرت عبداللہ بن کعب سے روایت ہے، وہ اپنے باپ حضرت کعب بن مالک ؓ سے بیان کرتے ہیں، ان کے باپ ان تین صحابہ میں سے تھے جن کی توبہ قبول کی گئی تھی، انہوں نے کہا: وہ دو غزووں: غزوہ عسرت، یعنی غزوہ تبوک اور غزوہ بدر کے علاوہ اور کسی غزوے میں کبھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جانے سے پیچھے نہیں رہے تھے۔ انہوں نے کہا: (غزوہ تبوک سے واپسی پر) چاشت کے وقت جب رسول اللہ ﷺ واپس تشریف لائے تو میں نے سچ بولنے کا پختہ ارادہ کر لیا۔ آپ کا سفر سے واپس آنے کا معمول یہ تھا کہ چاشت کے وقت آپ پہنچتے تھے۔ سب سے پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے، وہاں دو رکعت نماز پڑھتے۔ الغرض نبی ﷺ نے مجھ سے اور میری طرح کے دو اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے دوسرے لوگوں کو بات چیت کرنے سے منع کر دیا تھا۔ ہمارے علاوہ اور بہت سے لوگ تھے جو اس غزوے میں شریک نہیں ہوئے تھے لیکن آپ نے ان سے بائیکاٹ کا حکم نہیں دیا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4677]
حدیث حاشیہ:

یہ تینوں حضرات کعب بن مالک ؓ، مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ ؓ تھے۔
یہ تینوں انتہائی مخلص اور ہر قسم کے شک وشبہ سے بالاتر مسلمان تھے۔
قبل ازیں ہر غزوے میں شریک ہوتے رہے لیکن اس غزوے میں صرف سستی کی وجہ سے شریک نہ ہوسکے۔
بعد میں جب انھیں غلطی کا احساس ہوا تو سوچا ایک غلطی تو پیچھے رہنے کی ہوگئی ہے اب منافقین کی طرح رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جھوٹا عذر پیش کرنے کی غلطی نہیں کریں گے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنی غلطی کا صاف صاف اقرار کرلیا اور اس کی سزا کے لیے اپنے آپ کو پیش کردیا۔
رسول اللہ ﷺ نے ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے کردیا کہ وہی ان کے متعلق کوئی فیصلہ فرمائے گا، تاہم اس دوران میں رسول اللہ ﷺ نے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو ان تینوں افراد سے تعلق قائم رکھنے حتی کہ بات چیت کرنے سے روک دیا اور چالیس راتوں کے بعد حکم دیا کہ وہ اپنی بیویوں سے بھی دور رہیں چنانچہ بیویوں سے بھی علیحدگی عمل میں آگئی۔
مزید دن دس گزرے تو پچاس دنوں کے بعد ان کی توبہ قبول کرلی گئی، اور اللہ تعالیٰ نے ان کی سچائی، راست بازی اور وفاداری کی تعریف بھی فرمائی۔

اس سلسلے میں ہم ایک واقعے کا ذکر ضروری خیال کرتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا ایمان کس قدر مضبوط تھا حضرت کعب ؓ فرماتے ہیں:
جن دنوں میرے ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی گفتگو بند کی گئی تھی انھی دنوں شام کے عیسائیوں میں سے ایک شخص مجھے ملا اور اس نے شاہ غسان کا خط میرے حوالے کیا اس خط میں لکھاتھا:
امابعد! ہم نے سنا ہے کہ تمہارے صاحب نے تم پر تشدد کیا ہے۔
تم ایسے حقیر آدمی نہیں ہو جسے یونہی ضائع کردیا جائے۔
اگر تم ہمارے پاس آجاؤ تو ہم تمہاری پوری پوری قدر کریں گے۔
میں نے جب یہ خط پڑھا تو سمجھ گیا کہ یہ ایک دوسری آزمائش مجھ پر نازل فرمائی ہے، چنانچہ میں نے وہ خط فوراً تنور میں جھونک دیا۔
۔
۔
(التوبة: 117/9)
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہم جیسے دین فروش نہ تھے کہ چند ٹکوں کے عوض اپنا دین فروخت کردیتے۔
۔
۔
رضوان اللہ عنھم أجمعین۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4677