صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابٌ:
باب:۔۔۔
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: {فَاخْتَلَطَ} فَنَبَتَ بِالْمَاءِ مِنْ كُلِّ لَوْنٍ. وَ{قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا سُبْحَانَهُ هُوَ الْغَنِيُّ}. وَقَالَ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ: {أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ} مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ مُجَاهِدٌ خَيْرٌ. يُقَالُ: {تِلْكَ آيَاتُ} يَعْنِي هَذِهِ أَعْلاَمُ الْقُرْآنِ وَمِثْلُهُ. {حَتَّى إِذَا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ وَجَرَيْنَ بِهِمْ} الْمَعْنَى بِكُمْ. {دَعْوَاهُمْ} دُعَاؤُهُمْ {أُحِيطَ بِهِمْ} دَنَوْا مِنَ الْهَلَكَةِ {أَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ} فَاتَّبَعَهُمْ وَأَتْبَعَهُمْ وَاحِدٌ. {عَدْوًا} مِنَ الْعُدْوَانِ. وَقَالَ مُجَاهِدٌ: {يُعَجِّلُ اللَّهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ بِالْخَيْرِ} قَوْلُ الإِنْسَانِ لِوَلَدِهِ وَمَالِهِ إِذَا غَضِبَ اللَّهُمَّ لاَ تُبَارِكْ فِيهِ وَالْعَنْهُ {لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ} لأُهْلِكُ مَنْ دُعِيَ عَلَيْهِ وَلأَمَاتَهُ. {لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَى} مِثْلُهَا حُسْنَى {وَزِيَادَةٌ} مَغْفِرَةٌ. {الْكِبْرِيَاءُ} الْمُلْكُ.
‏‏‏‏ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «فاختلط» کا معنی یہ ہے کہ پانی برسنے کی وجہ سے زمین سے ہر قسم کا سبزہ اگا۔ یعنی عیسائی کہتے ہیں کہ اللہ نے ایک بیٹا بنا رکھا ہے۔ سبحان اللہ، وہ بےنیاز ہے اور زید بن اسلم نے کہا کہ «أن لهم قدم صدق‏» سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں۔ اور مجاہد نے بیان کیا کہ اس سے بھلائی مراد ہے۔ «تلك آيات‏» میں «تلك» جو حاضر کے لیے ہے مراد اس سے غائب ہے۔ یعنی یہ قرآن کی نشانیاں ہیں، اسی طرح اس آیت۔ «حتى إذا كنتم في الفلك وجرين بهم‏» میں «بهم‏» سے «بكم‏.‏» مراد ہے یعنی غائب سے حاضر مراد ہے۔ «دعواهم‏» ای «دعاؤهم‏» ان کی دعا «أحيط بهم‏» یعنی ہلاکت و بربادی کے قریب آ گئے، جیسے «أحاطت به خطيئته‏» یعنی گناہوں نے اس کو سب طرف سے گھیر لیا۔ «فاتبعهم» اور «وأتبعهم» کے ایک معنی ہیں۔ «عدوا‏»، «عدوان‏.‏» سے نکلا ہے۔ آیت «يعجل الله للناس الشر استعجالهم بالخير‏» کے متعلق مجاہد نے کہا کہ اس سے مراد غصہ کے وقت آدمی کا اپنی اولاد اور اپنے مال کے متعلق یہ کہنا کہ اے اللہ! اس میں برکت نہ فرما اور اس کو اپنی رحمت سے دور کر دے تو (بعض اوقات ان کی یہ دعا نہیں لگتی) کیونکہ ان کی تقدیر کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہوتا ہے اور (بعض اوقات) جس پر بددعا کی جاتی ہے، وہ ہلاک و برباد ہو جاتے ہیں۔ «للذين أحسنوا الحسنى‏» میں مجاہد نے کہا «زيادة‏» سے مغفرت اور اللہ کی رضا مندی مراد ہے دوسرے لوگوں نے کہا «وزيادة‏» سے اللہ کا دیدار مراد ہے۔ «الكبرياء‏» سے سلطنت اور بادشاہی مراد ہے۔