صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابُ: {أَلاَ إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ أَلاَ حِينَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ} :
باب: آیت کی تفسیر ”خبردار ہو، وہ لوگ جو اپنے سینوں کو دہرا کئے دیتے ہیں، تاکہ اپنی باتیں اللہ سے چھپا سکیں وہ غلطی پر ہیں، اللہ سینے کے بھیدوں سے واقف ہے۔ خبردار رہو! وہ لوگ جس وقت چھپنے کے لیے اپنے کپڑے لپیٹتے ہیں (اس وقت بھی) وہ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں، بیشک وہ (ان کے) دلوں کے اندر (کی باتوں) سے خوب خبردار ہے“۔
وَقَالَ غَيْرُهُ: {وَحَاقَ} نَزَلَ، يَحِيقُ يَنْزِلُ. يَئُوسٌ فَعُولٌ مِنْ يَئِسْتُ. وَقَالَ مُجَاهِدٌ: {تَبْتَئِسْ} تَحْزَنْ. {يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ} شَكٌّ وَامْتِرَاءٌ فِي الْحَقِّ. {لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ} مِنَ اللَّهِ إِنِ اسْتَطَاعُوا.
‏‏‏‏ عکرمہ کے سوا اور لوگوں نے کہا کہ «حاق» کا معنی اتر پڑا اسی سے ہے «يحيق ينزل» اترتا ہے۔ «انه ليوس كفور» میں «يوس» کا معنی ناامید ہونا۔ جو بروزن «فعول» ہے۔ یہ «يئست» سے نکلا ہے اور مجاہد نے کہا «لا تبتئس» کا معنی غم نہ کھا «يثنون صدورهم» کا مطلب یہ ہے کہ حق بات میں شک و شبہ کرتے ہیں۔ «ليستخفوا منه» یعنی اگر ہو سکے تو اللہ سے چھپا لیں۔