سنن دارمي
من كتاب الفرائض -- وراثت کے مسائل کا بیان
24. باب في ابْنِ الْمُلاَعَنَةِ:
لعان کرنے والے میاں بیوی کے بیٹے کی وراثت کا بیان
حدیث نمبر: 3000
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ النُّعْمَانِ، عَنْ مَكْحُولٍ: أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ مِيرَاثِ وَلَدِ الْمُلَاعَنَةِ لِمَنْ هُوَ؟ قَالَ: جَعَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لِأُمِّهِ فِي سَبَبِهِ لِمَا لَقِيَتْ مِنْ الْبَلَاءِ، وَلِإِخْوَتِهِ مِنْ أُمِّهِ، وقَالَ مَكْحُول: فَإِنْ مَاتَتْ الْأُمُّ، وَتَرَكَتْ ابْنَهَا، ثُمَّ تُوُفِّيَ ابْنُهَا الَّذِي جُعِلَ لَهَا، كَانَ مِيرَاثُهُ لِإِخْوَتِهِ مِنْ أُمِّهِ كُلُّهُ، لِأَنَّهُ كَانَ لِأُمِّهِمْ وَجَدِّهِمْ، وَكَانَ لِأَبِيهَا السُّدُسُ مِنْ ابْنِ ابْنَتِهِ، وَلَيْسَ يَرِثُ الْجَدُّ إِلَّا فِي هَذِهِ الْمَنْزِلَةِ، لِأَنَّهُ إِنَّمَا هُوَ أَبُ الْأُمِّ، وَإِنَّمَا وَرِثَ الْإِخْوَةُ مِنْ الْأُمِّ أُمَّهُمْ، وَوَرِثَ الْجَدُّ ابْنَتَهُ لِأَنَّهُ جُعِلَ لَهَا، فَالْمَالُ الَّذِي لِلْوَلَدِ لِوَرَثَةِ الْأُمِّ وَهُوَ بِحَوْزَةِ الْجَدُّ وَحْدَهُ إِذَا لَمْ يَكُنْ غَيْرُهُ".
نعمان سے مروی ہے مکحول رحمہ اللہ سے ولد الملاعنہ کی میراث کے بارے میں پوچھا گیا کہ کس کے لئے ہوگی؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی میراث کو ماں کے لئے خاص کیا کیوں کہ اس کی وجہ سے ہی وہ اس (لعان کی) مصیبت میں گرفتار ہوئی، اور اس کی (میراث کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) مادری بھائیوں کے لئے خاص کیا۔
مکحول رحمہ اللہ نے کہا: اگر ماں فوت ہو جائے اور اپنا بیٹا چھوڑ جائے، پھر اس کا بیٹا بھی فوت ہو جائے جس کے لئے میراث تھی، تو اس کی میراث مادری بھائیوں کے لئے ہوگی، کیوں کہ یہ میراث ان (مادری بھائیوں کی) ماں اور نانا کے لئے ہے، اور نانا کے لئے اس کی نواسی کی میراث میں سے چھٹا حصہ ہوگا، اور نانا صرف اسی صورت میں وارث ہوگا اس لئے کہ وہ ماں کا باپ ہے، اور مادری بھائی اپنی ماں کے اور نانا اپنی بیٹی کا وارث ہوگا، کیونکہ اس (متلاعن بیٹے) کی میراث ماں کے لئے ہے، پس جو مال اس لڑکے کا ہے وہ ماں کے وارثین کا ہے، اگر کوئی دوسرا وارث نہ ہوتو کل میراث نانا کے قبضہ میں ہوگی۔

تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده إلى محكول صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3010]»
اس حدیث کی سند مکحول رحمہ اللہ تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2907]، [ابن أبى شيبه 11364، مختصرًا] و [البيهقي 259/6]