صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
3. بَابُ: {وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو (بھیجا)“۔
إِلَى أَهْلِ مَدْيَنَ لأَنَّ مَدْيَنَ بَلَدٌ، وَمِثْلُهُ: {وَاسْأَلِ الْقَرْيَةَ} وَاسْأَلِ {الْعِيرَ} يَعْنِي أَهْلَ الْقَرْيَةِ {وَأَصْحَابَ} الْعِيرِ {وَرَاءَكُمْ ظِهْرِيًّا} يَقُولُ لَمْ تَلْتَفِتُوا إِلَيْهِ، وَيُقَالُ إِذَا لَمْ يَقْضِ الرَّجُلُ حَاجَتَهُ ظَهَرْتَ بِحَاجَتِي وَجَعَلْتَنِي ظِهْرِيًّا، وَالظِّهْرِيُّ هَاهُنَا أَنْ تَأْخُذَ مَعَكَ دَابَّةً أَوْ وِعَاءً تَسْتَظْهِرُ بِهِ. {أَرَاذِلُنَا} سُقَاطُنَا. {إِجْرَامِي} هُوَ مَصْدَرٌ مِنْ أَجْرَمْتُ وَبَعْضُهُمْ يَقُولُ جَرَمْتُ. الْفُلْكُ وَالْفَلَكُ وَاحِدٌ وَهْيَ السَّفِينَةُ وَالسُّفُنُ. {مُجْرَاهَا} مَدْفَعُهَا وَهْوَ مَصْدَرُ أَجْرَيْتُ، وَأَرْسَيْتُ حَبَسْتُ وَيُقْرَأُ: {مَرْسَاهَا} مِنْ رَسَتْ هِيَ، وَ{مَجْرَاهَا} مِنْ جَرَتْ هِيَ وَ{مُجْرِيهَا وَمُرْسِيهَا} مِنْ فُعِلَ بِهَا، الرَّاسِيَاتُ ثَابِتَاتٌ.
‏‏‏‏ «وإلى مدين» یعنی مدین والوں کی طرف کیونکہ مدین ایک شہر کا نام ہے جسے دوسری جگہ فرمایا «واسأل القرية» یعنی گاؤں والوں سے پوچھ۔ «واسأل العير» یعنی قافلہ والوں سے پوچھ۔ «وراءكم ظهريا» یعنی پس پشت ڈال دیا اس کی طرف التفات نہ کیا۔ جب کوئی کسی کا مقصد پورا نہ کرے تو عرب لوگ کہتے ہیں «ظهرت بحاجتي» اور «جعلتني ظهريا» اس جگہ «ظهري» کا معنی وہ جانور یا برتن ہے جس کو تو اپنے کام کے لیے ساتھ رکھے۔ «أراذلنا» ہمارے میں سے کمینے لوگ۔ «إجرام»، «أجرمت» کا مصدر ہے یا «جرمت ثلاثى» مجرد۔ «فلك» اور «فلك» جمع اور مفرد دونوں کے لیے آتا ہے۔ ایک کشتی اور کئی کشتیوں کو بھی کہتے ہیں۔ «مجراها» کشتی کا چلنا یہ «أجريت» کا مصدر ہے۔ اسی طرح «مرساها»، «أرسيت» کا مصدر ہے یعنی میں نے کشتی تھما لی (لنگر کر دیا) بعضوں نے «مرساها» بفتح میم پڑھا ہے «رست» سے۔ اسی طرح «مجراها» بھی «جرت» سے ہے۔ بعضوں نے «مجريها»، «مرسيها» یعنی اللہ اس کو چلانے والا ہے اور وہی اس کا تھمانے والا ہے یہ معنوں میں مفعول کے ہیں۔ «راسيات» کے معنی جمی ہوئی کے ہیں۔