صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
6. بَابُ قَوْلِهِ: {وَأَقِمِ الصَّلاَةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور تم نماز قائم کرو، دن کے دونوں سروں پر اور رات کے کچھ حصوں میں، بیشک نیکیاں مٹا دیتی ہیں بدیوں کو، یہ ایک نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں کے لیے“۔
وَزُلَفًا: سَاعَاتٍ بَعْدَ سَاعَاتٍ وَمِنْهُ سُمِّيَتِ الْمُزْدَلِفَةُ الزُّلَفُ، مَنْزِلَةٌ بَعْدَ مَنْزِلَةٍ، وَأَمَّا زُلْفَى، فَمَصْدَرٌ مِنَ الْقُرْبَى ازْدَلَفُوا اجْتَمَعُوا، أَزْلَفْنَا: جَمَعْنَا.
‏‏‏‏ «زلفا» یعنی گھڑی گھڑی اسی سے «مزدلفة» ہے۔ کیونکہ لوگ وہاں وقفہ وقفہ سے آتے رہتے ہیں اور «زلف» منزلوں کو بھی کہتے ہیں۔ «زلفى» کا لفظ جو سورۃ ص میں ہے جیسے «قربى» یعنی نزدیکی۔ «ازدلفوا» کا معنی جمع ہو گئے۔ «أزلفنا» متعدی ہے۔ یعنی ہم نے جمع کیا۔ ایک شخص کسی غیر عورت کو ہاتھ سے چھونے یا صرف بوسہ دے دینے کا مرتکب ہو گیا تھا اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔
حدیث نمبر: 4687
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ هُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَجُلًا أَصَابَ مِنَ امْرَأَةٍ قُبْلَةً، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَأُنْزِلَتْ عَلَيْهِ: وَأَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ سورة هود آية 114 قَالَ الرَّجُلُ: أَلِيَ هَذِهِ؟ قَالَ:" لِمَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ أُمَّتِي".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان تیمی نے بیان کیا، ان سے ابوعثمان نے اور ان سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص نے کسی غیر عورت کو بوسہ دے دیا اور پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے اپنا گناہ بیان کیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «وأقم الصلاة طرفى النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات ذلك ذكرى للذاكرين‏» اور تم نماز کی پابندی کرو دن کے دونوں سروں پر اور رات کے کچھ حصوں میں بیشک نیکیاں مٹا دیتی ہیں بدیوں کو، یہ ایک نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں کے لیے۔ ان صاحب نے عرض کیا یہ آیت صرف میرے ہی لیے ہے (کہ نیکیاں بدیوں کو مٹا دیتی ہیں)؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے ہر انسان کے لیے ہے جو اس پر عمل کرے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4254  
´توبہ کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر بتایا کہ اس نے ایک عورت کا بوسہ لیا ہے، وہ اس کا کفارہ پوچھنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کچھ نہیں کہا تو اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی: «وأقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات ذلك ذكرى للذاكرين» نماز قائم کرو دن کے دونوں حصوں (صبح و شام) میں اور رات کے ایک حصے میں، بیشک نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں، یہ ذکر کرنے والوں کے لیے ایک نصیحت ہے (سورۃ ہود: ۱۱۴)، اس شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا یہ (خاص) میرے لیے ہے؟ تو ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4254]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بعض گناہ دوسرے گناہوں سے چھوٹے بڑے ہوتے ہیں۔
جتنا بڑا گناہ ہوگا اس کی معافی کے لئے اتنی بڑی نیکی کی ضرورت ہے۔

(2)
وہ شخص اپنے گناہ پرنادم تھا۔
اور اس کی معافی کے لئے ہر کفارہ ادا کرنے کوتیارتھا۔
اس وجہ سے وہ گناہ نماز کی برکت سے معاف ہوگیا۔
جو شخص نادم نہ ہو۔
گناہ کو معمولی سمجھے اس کا چھوٹا گناہ بھی بڑا ہوجاتاہے۔

(3)
آیت کے شان نزول سے اس کا مطلب اور مفہوم واضح ہوجاتا ہے لیکن آیت میں مذکور حکم امت کے سب افراد کےلئے ہوتا ہے۔

(4)
گناہ ہوجائے تو فورا کوئی نیکی کرنی چاہیے مثلاً نفل نماز پڑھ کر گناہ کی معافی کی دعا کرے۔
یا صدقہ خیرات کرے یا کوئی اور نیکی کرے جو اس گناہ کی معافی سے مناسبت رکھتی ہو۔
مثلاً ذکر و اذکار، تلاوت اور نفلی روزہ وغیرہ۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4254   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4687  
4687. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کسی اجنبی عورت کا بوسہ لے لیا۔ اس کے بعد وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا گناہ بیان کیا تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: "آپ دن کے دونوں اطراف میں اور کچھ رات گئے نماز پڑھیں۔ بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ ایک یاد دہانی ہے یاد کرنے والوں کے لیے۔" اس شخص نے آپ ﷺ سے دریافت کیا: آیا یہ امر خاص میرے لیے ہے؟ آپ نے فرمایا: "نہیں، بلکہ میری امت میں سے جو بھی اس پر عمل کرے یہ سب کے لیے ہے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4687]
حدیث حاشیہ:
یعنی گناہ کر کے نادم ہو۔
سچے دل سے توبہ کرے اور نماز پڑھے تو اللہ اس کے گناہ بخش دے گا۔
دونوں سروں سے فجر اور مغرب کی نمازیں اور رات سے عشاءکی نماز مراد ہے۔
ظہر اور عصر کی نمازوں کا ذکر دوسری آیتوں میں موجود ہے جو منکرین حدیث صرف تین نمازوں کے قائل ہیں وہ قرآن پاک سے بھی واقف نہیں ہیں۔
اللہ ان کو نیک سمجھ عطا کرے۔
(آمین)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4687   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4687  
4687. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کسی اجنبی عورت کا بوسہ لے لیا۔ اس کے بعد وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا گناہ بیان کیا تو اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: "آپ دن کے دونوں اطراف میں اور کچھ رات گئے نماز پڑھیں۔ بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔ یہ ایک یاد دہانی ہے یاد کرنے والوں کے لیے۔" اس شخص نے آپ ﷺ سے دریافت کیا: آیا یہ امر خاص میرے لیے ہے؟ آپ نے فرمایا: "نہیں، بلکہ میری امت میں سے جو بھی اس پر عمل کرے یہ سب کے لیے ہے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4687]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں اس کی تفصیل بیان ہوئی ہے۔
ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی:
اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں نے ایک عورت سے جماع کے علاوہ سب کچھ کیا ہے۔
میں حاضر ہوں میرے متعلق جو چاہیں فیصلہ فرمائیں حضرت عمرؓ نے کہا:
اللہ تعالیٰ نے تجھ پر پردہ ڈالا تھا۔
بہتر تھا کہ تو خود بھی اس پر پردہ پوشی کرتا لیکن رسول اللہ ﷺ نے اسے کوئی جواب نہ دیا وہ اٹھ کر چلا گیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے پیچھے ایک آدمی کو بھیجا اور اسے بلا کر مذکورہ آیت سنائی قوم سے ایک آدمی نے کہا:
اللہ کے رسول اللہ ﷺ! کیا یہ حکم خاص اس کے لیے ہے؟ آپ نے فرمایا:
"نہیں بلکہ تمام لوگوں کے لیے ہے۔
" (صحیح مسلم التوبہ حدیث 7004۔
(2763)
ایک دوسری روایت میں ہے:
" کیا تونے اچھی طرح وضو کر کے نماز نہیں پڑھی؟" اس نے کہا:
کیوں نہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ نے تیرا گناہ معاف کردیا ہے۔
" (صحیح مسلم التوبہ حدیث7007(2765)

سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"پانچوں نمازیں جمعہ دوسرے جمعے تک اور رمضان دوسرے رمضان تک کے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں جبکہ وہ بڑے گناہوں سے اجتناب کرتا رہے۔
(صحیح مسلم الطہارۃ حدیث552۔
(233)

نیکیوں سے برائیاں ختم ہونے کی تین صورتیں ہیں۔
جو شخص نیکیاں بکثرت کرے اس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
اس سے برائی کی عادت چھوٹ جاتی ہے۔
جس معاشرے میں نیکی کے کام بکثرت ہو رہے ہوں برائیاں خود بخود وہاں سے رخصت ہو نے لگتی ہیں۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4687