صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
13. سورة الرَّعْدِ:
باب: سورۃ الرعد کی تفسیر۔
وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ: مَثَلُ الْمُشْرِكِ الَّذِي عَبَدَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ غَيْرَهُ، كَمَثَلِ الْعَطْشَانِ الَّذِي يَنْظُرُ إِلَى ظِلِّ خَيَالِهِ فِي الْمَاءِ مِنْ بَعِيدٍ وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يَتَنَاوَلَهُ وَلَا يَقْدِرُ، وَقَالَ غَيْرُهُ: سَخَّرَ: ذَلَّلَ، مُتَجَاوِرَاتٌ مُتَدَانِيَاتٌ، وَقَالَ غَيْرُهُ: الْمَثُلَاتُ: وَاحِدُهَا مَثُلَةٌ وَهِيَ الْأَشْبَاهُ وَالْأَمْثَالُ، وَقَالَ: إِلَّا مِثْلَ أَيَّامِ الَّذِينَ خَلَوْا، بِمِقْدَارٍ: بِقَدَرٍ، يُقَالُ: مُعَقِّبَاتٌ: مَلَائِكَةٌ حَفَظَةٌ تُعَقِّبُ الْأُولَى مِنْهَا الْأُخْرَى، وَمِنْهُ قِيلَ: الْعَقِيبُ، أَيْ عَقَّبْتُ فِي إِثْرِهِ الْمِحَالِ الْعُقُوبَةُ، كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ: لِيَقْبِضَ عَلَى الْمَاءِ، رَابِيًا: مِنْ رَبَا يَرْبُو، أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ: مِثْلُهُ الْمَتَاعُ مَا تَمَتَّعْتَ بِهِ، جُفَاءً، يُقَالُ: أَجْفَأَتِ الْقِدْرُ إِذَا غَلَتْ فَعَلَاهَا الزَّبَدُ ثُمَّ تَسْكُنُ فَيَذْهَبُ الزَّبَدُ بِلَا مَنْفَعَةٍ فَكَذَلِكَ يُمَيِّزُ الْحَقَّ مِنَ الْبَاطِلِ الْمِهَادُ: الْفِرَاشُ، يَدْرَءُونَ: يَدْفَعُونَ دَرَأْتُهُ عَنِّي دَفَعْتُهُ، سَلَامٌ عَلَيْكُمْ: أَيْ يَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ، وَإِلَيْهِ مَتَابِ: تَوْبَتِي، أَفَلَمْ يَيْئَسْ: أَفَلَمْ يَتَبَيَّنْ، قَارِعَةٌ: دَاهِيَةٌ، فَأَمْلَيْتُ: أَطَلْتُ مِنَ الْمَلِيِّ وَالْمِلَاوَةِ وَمِنْهُ مَلِيًّا، وَيُقَالُ لِلْوَاسِعِ الطَّوِيلِ مِنَ الْأَرْضِ مَلًى مِنَ الْأَرْضِ، أَشَقُّ: أَشَدُّ مِنَ الْمَشَقَّةِ، مُعَقِّبَ: مُغَيِّرٌ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: مُتَجَاوِرَاتٌ: طَيِّبُهَا وَخَبِيثُهَا السِّبَاخُ، صِنْوَانٌ: النَّخْلَتَانِ أَوْ أَكْثَرُ فِي أَصْلٍ وَاحِدٍ، وَغَيْرُ صِنْوَانٍ: وَحْدَهَا، بِمَاءٍ وَاحِدٍ: كَصَالِحِ بَنِي آدَمَ وَخَبِيثِهِمْ، أَبُوهُمْ وَاحِدٌ، السَّحَابُ الثِّقَالُ الَّذِي فِيهِ الْمَاءُ، كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ، يَدْعُو الْمَاءَ بِلِسَانِهِ، وَيُشِيرُ إِلَيْهِ بِيَدِهِ، فَلَا يَأْتِيهِ أَبَدًا، فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا: تَمْلَأُ بَطْنَ كُلِّ وَادٍ، زَبَدًا رَابِيًا: الزَّبَدُ زَبَدُ السَّيْلِ، زَبَدٌ مِثْلُهُ خَبَثُ الْحَدِيدِ وَالْحِلْيَةِ.
‏‏‏‏ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «كباسط كفيه‏» یہ مشرک کی مثال ہے جو اللہ کے سوا دوسروں کی پوجا کرتا ہے جیسے پیاسا آدمی پانی کا تصور کر کے دور سے پانی کی طرف ہاتھ بڑھائے اور اس کو نہ لے سکے۔ دوسرے لوگوں نے کہا «سخر‏ا» کے معنی تابعدار کیا، مسخر کیا۔ «متجاورات‏» ایک دوسرے سے ملے ہوئے، قریب قریب۔ «المثلات‏»، «مثلة» کی جمع ہے یعنی جوڑا اور مشابہ۔ اور دوسری آیت میں ہے «إلا مثل أيام الذين خلوا‏» مگر مشابہ دنوں ان لوگوں کے جو پہلے گزر گئے «بمقدار‏» یعنی اندازے سے، جوڑ سے۔ «معقبات‏» نگہبان فرشتے جو ایک دوسرے کے بعد باری باری آتے رہتے ہیں، اسی سے «عقيب‏.‏» کا لفظ نکلا ہے۔ عرب لوگ کہتے ہیں «عقبت في إثره» یعنی میں اس کے نشان قدم پر پیچھے پیچھے گیا۔ «المحال» عذاب۔ «كباسط كفيه إلى الماء‏» جو دونوں ہاتھ بڑھا کر پانی لینا چاہے۔ «رابيا‏»، «ربا»، «يربو‏.‏» سے نکلا ہے یعنی بڑھنے والا یا اوپر تیرنے والا۔ «المتاع» جس چیز سے تو فائدہ اٹھائے اس کو کام میں لائے۔ «جفاء‏»، «أجفأت القدر» سے نکلا ہے یعنی ہانڈی نے جوش مارا جھاگ اوپر آ گیا پھر جب ہانڈی ٹھنڈی ہوتی ہے تو پھین جھاگ بیکار سوکھ کر فنا ہو جاتاہے۔ حق باطل سے اسی طرح جدا ہو جاتا ہے۔ «المهاد‏» بچھونا۔ «يدرءون‏» دھکیلتے ہیں، دفع کرتے ہیں یہ «درأته» سے نکلا ہے یعنی میں نے اس کو دور کیا، دفع کر دیا۔ «سلام عليكم‏» یعنی فرشتے مسلمانوں کو کہتے جائیں گے تم سلامت رہو۔ «وإليه متاب‏» میں اسی کی درگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔ «أفلم ييأس‏» کیا انہوں نے نہیں جانا۔ «قارعة‏» آفت، مصیبت۔ «فأمليت‏» میں نے ڈھیلا چھوڑا، مہلت دی یہ لفظ «ملي» اور «ملاوة» ‏‏‏‏ سے نکلا ہے۔ اسی سے نکلا ہے جو جبرائیل کی حدیث میں ہے۔ «فلبثت مليا» (یا قرآن میں ہے) «واهجرنى مليا» اور کشادہ لمبی زمین کو «ملا» کہتے ہیں۔ «أشق‏»، «افعل التفصيل» کا صیغہ ہے مشقت سے یعنی بہت سخت۔ «معقب‏ لا معقب‏ لحكمه» میں یعنی نہیں بدلنے والا اور مجاہد نے کہا «متجاورات‏» کا معنی یہ ہے کہ بعضے قطعے عمدہ قابل زراعت ہیں بعض خراب شور کھارے ہیں۔ «صنوان‏» وہ کھجور کے درخت جن کی جڑ ملی ہوئی ہو (ایک ہی جڑ پر کھڑے ہوں)۔ «غير صنوان‏» الگ الگ جڑ پر سب ہی ایک پانی سے اگتے ہیں (ایک ہی ہوا سے ایک ہی زمین میں) آدمیوں کی بھی یہی مثال ہے کوئی اچھا کوئی برا حالانکہ سب ایک باپ آدم کی اولاد ہیں۔ «السحاب الثقال» وہ بادل جن میں پانی بھرا ہوا ہو اور وہ پانی کے بوجھ سے بھاری بھر کم ہوں۔ «كباسط كفيه‏» یعنی اس شخص کی طرح جو دور سے ہاتھ پھیلا کر پانی کو زبان سے بلائے، ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کرے اس صورت میں پانی کبھی اس کی طرف نہیں آئے گا۔ «سالت أودية بقدرها‏» یعنی نالے اپنے انداز سے بہتے ہیں یعنی پانی بھر کر «زبدا»، «رابيا‏» سے مراد بہتے پانی کا پھین جھاگ «زبد مثله» سے لو ہے، زیورات وغیرہ کا پھین جھاگ مراد ہے۔ لفظ «معقبات» سے مراد یہ ہے کہ رات کے فرشتے الگ اور دن کے الگ ہیں۔