صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
14. سورة إِبْرَاهِيمَ:
باب: سورۃ ابراہیم کی تفسیر۔
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هَادٍ: دَاعٍ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: صَدِيدٌ قَيْحٌ وَدَمٌ، وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ: أَيَادِيَ اللَّهِ عِنْدَكُمْ وَأَيَّامَهُ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ: رَغِبْتُمْ إِلَيْهِ فِيهِ، يَبْغُونَهَا عِوَجًا: يَلْتَمِسُونَ لَهَا عِوَجًا، وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ، أَعْلَمَكُمْ آذَنَكُمْ: رَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ، هَذَا مَثَلٌ كَفُّوا عَمَّا أُمِرُوا بِهِ، مَقَامِي: حَيْثُ يُقِيمُهُ اللَّهُ بَيْنَ يَدَيْهِ، مِنْ وَرَائِهِ: قُدَّامَهُ جَهَنَّمُ، لَكُمْ تَبَعًا: وَاحِدُهَا تَابِعٌ مِثْلُ غَيَبٍ وَغَائِبٍ، بِمُصْرِخِكُمْ: اسْتَصْرَخَنِي اسْتَغَاثَنِي يَسْتَصْرِخُهُ مِنَ الصُّرَاخِ، وَلَا خِلَالَ: مَصْدَرُ خَالَلْتُهُ خِلَالًا وَيَجُوزُ أَيْضًا جَمْعُ خُلَّةٍ وَخِلَالٍ، اجْتُثَّتْ: اسْتُؤْصِلَتْ.
‏‏‏‏ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «هاد‏» کا معنی بلانے والا، ہدایت کرنے والا (نبی و رسول مراد ہیں)۔ اور مجاہد نے کہا «صديد» ‏‏‏‏ کا معنی پیپ اور لہو۔ اور سفیان بن عیینہ نے کہ «اذكروا نعمة الله عليكم‏» کا معنی یہ ہے کہ اللہ کی جو نعمتیں تمہارے پاس ہیں ان کو یاد کرو اور جو جو اگلے واقعات اس کی قدرت کے ہوئے ہیں اور مجاہد نے کہا «من كل ما سألتموه‏» کا معنی یہ ہے کہ جن جن چیزوں کی تم نے رغبت کی «يبغونها عوجا‏» اس میں کجی پیدا کرنے کی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ «وإذ تأذن ربكم‏» جب تمہارے مالک نے تم کو خبردار کر دیا جتلا دیا۔ «ردوا أيديهم في أفواههم‏» یہ عرب کی زبان میں ایک مثل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا جو حکم ہوا تھا اس سے باز رہے، بجا نہ لائے۔ «مقامي‏» وہ جگہ جہاں اللہ پاک اس کو اپنے سامنے کھڑا کرے گا۔ «من ورائه‏» سامنے سے۔ «لكم تبعا‏»، «تبع»، «تابع» کی جمع ہے جیسے «غيب»، «غائب» کی۔ «بمصرخكم‏» عرب لوگ کہتے ہیں «استصرخني» یعنی اس نے میری فریاد سن لی۔ «يستصرخه» اس کی فریاد سنتا ہے دونوں «صراخ» سے نکلے ہیں ( «صراخ» کا معنی فریاد)۔ «ولا خلال‏»، «خاللته» کا مصدر ہے اور «خلة» کی جمع بھی ہو سکتا ہے (یعنی اس دن دوستی نہ ہو گی یا دوستیاں نہ ہوں گی) «اجتثت‏» جڑ سے اکھاڑ لیا گیا۔