صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابُ قَوْلِهِ: {كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ تُؤْتِي أُكْلَهَا كُلَّ حِينٍ} :
باب: آیت «كشجرة طيبة أصلها ثابت وفرعها في السماء تؤتي أكلها كل حين» کی تفسیر۔
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هَادٍ: دَاعٍ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: صَدِيدٌ قَيْحٌ وَدَمٌ، وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ: أَيَادِيَ اللَّهِ عِنْدَكُمْ وَأَيَّامَهُ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ: رَغِبْتُمْ إِلَيْهِ فِيهِ، يَبْغُونَهَا عِوَجًا: يَلْتَمِسُونَ لَهَا عِوَجًا، وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ، أَعْلَمَكُمْ آذَنَكُمْ: رَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ، هَذَا مَثَلٌ كَفُّوا عَمَّا أُمِرُوا بِهِ، مَقَامِي: حَيْثُ يُقِيمُهُ اللَّهُ بَيْنَ يَدَيْهِ، مِنْ وَرَائِهِ: قُدَّامَهُ جَهَنَّمُ، لَكُمْ تَبَعًا: وَاحِدُهَا تَابِعٌ مِثْلُ غَيَبٍ وَغَائِبٍ، بِمُصْرِخِكُمْ: اسْتَصْرَخَنِي اسْتَغَاثَنِي يَسْتَصْرِخُهُ مِنَ الصُّرَاخِ، وَلَا خِلَالَ: مَصْدَرُ خَالَلْتُهُ خِلَالًا وَيَجُوزُ أَيْضًا جَمْعُ خُلَّةٍ وَخِلَالٍ، اجْتُثَّتْ: اسْتُؤْصِلَتْ.
‏‏‏‏ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «هاد‏» کا معنی بلانے والا، ہدایت کرنے والا (نبی و رسول مراد ہیں)۔ اور مجاہد نے کہا «صديد» ‏‏‏‏ کا معنی پیپ اور لہو۔ اور سفیان بن عیینہ نے کہ «اذكروا نعمة الله عليكم‏» کا معنی یہ ہے کہ اللہ کی جو نعمتیں تمہارے پاس ہیں ان کو یاد کرو اور جو جو اگلے واقعات اس کی قدرت کے ہوئے ہیں اور مجاہد نے کہا «من كل ما سألتموه‏» کا معنی یہ ہے کہ جن جن چیزوں کی تم نے رغبت کی «يبغونها عوجا‏» اس میں کجی پیدا کرنے کی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ «وإذ تأذن ربكم‏» جب تمہارے مالک نے تم کو خبردار کر دیا جتلا دیا۔ «ردوا أيديهم في أفواههم‏» یہ عرب کی زبان میں ایک مثل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا جو حکم ہوا تھا اس سے باز رہے، بجا نہ لائے۔ «مقامي‏» وہ جگہ جہاں اللہ پاک اس کو اپنے سامنے کھڑا کرے گا۔ «من ورائه‏» سامنے سے۔ «لكم تبعا‏»، «تبع»، «تابع» کی جمع ہے جیسے «غيب»، «غائب» کی۔ «بمصرخكم‏» عرب لوگ کہتے ہیں «استصرخني» یعنی اس نے میری فریاد سن لی۔ «يستصرخه» اس کی فریاد سنتا ہے دونوں «صراخ» سے نکلے ہیں ( «صراخ» کا معنی فریاد)۔ «ولا خلال‏»، «خاللته» کا مصدر ہے اور «خلة» کی جمع بھی ہو سکتا ہے (یعنی اس دن دوستی نہ ہو گی یا دوستیاں نہ ہوں گی) «اجتثت‏» جڑ سے اکھاڑ لیا گیا۔
حدیث نمبر: 4698
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" أَخْبِرُونِي بِشَجَرَةٍ تُشْبِهُ، أَوْ كَالرَّجُلِ الْمُسْلِمِ، لَا يَتَحَاتُّ وَرَقُهَا، وَلَا، وَلَا، وَلَا تُؤْتِي أُكْلَهَا كُلَّ حِينٍ"، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ، وَرَأَيْتُ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ لَا يَتَكَلَّمَانِ، فَكَرِهْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ، فَلَمَّا لَمْ يَقُولُوا شَيْئًا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هِيَ النَّخْلَةُ"، فَلَمَّا قُمْنَا قُلْتُ لِعُمَرَ: يَا أَبَتَاهُ، وَاللَّهِ لَقَدْ كَانَ وَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ، فَقَالَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَكَلَّمَ، قَالَ: لَمْ أَرَكُمْ تَكَلَّمُونَ فَكَرِهْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ، أَوْ أَقُولَ شَيْئًا، قَالَ عُمَرُ: لَأَنْ تَكُونَ قُلْتَهَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ كَذَا، وَكَذَا.
مجھ سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: اچھا مجھ کو بتلاؤ تو وہ کون سا درخت ہے جو مسلمان کی مانند ہے جس کے پتے نہیں گرتے، ہر وقت میوہ دے جاتا ہے؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میرے دل میں آیا وہ کھجور کا درخت ہے مگر میں نے دیکھا کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بیٹھے ہوئے ہیں انہوں نے جواب نہیں دیا تو مجھ کو ان بزرگوں کے سامنے کلام کرنا اچھا معلوم نہیں ہوا۔ جب ان لوگوں نے کچھ جواب نہیں دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرمایا وہ کھجور کا درخت ہے۔ جب ہم اس مجلس سے کھڑے ہوئے تو میں نے اپنے والد عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: بابا جان! اللہ کی قسم! میرے دل میں آیا تھا کہ میں کہہ دوں وہ کھجور کا درخت ہے۔ انہوں نے کہا پھر تو نے کہہ کیوں نہ دیا۔ میں نے کہا آپ لوگوں نے کوئی بات نہیں کی میں نے آگے بڑھ کر بات کرنا مناسب نہ جانا۔ انہوں نے کہا واہ اگر تو اس وقت کہہ دیتا تو مجھ کو اتنے اتنے (لال لال اونٹ کا) مال ملنے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 630  
´سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما صاحب علم تھے`
«. . . 298- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إن من الشجر شجرة لا يسقط ورقها، وهى مثل الرجل المسلم، فحدثوني ما هي؟ فوقع الناس فى شجر البوادي، ووقع فى نفسي أنها النخلة، فاستحييت. فقالوا: حدثنا يا رسول الله ما هي؟ فقال: هي النخلة. قال عبد الله بن عمر: فحدثت بالذي وقع فى نفسي من ذلك عمر بن الخطاب، فقال عمر: لأن تكون قلتها أحب إلى من كذا وكذا. كمل حديثه عن عبد الله بن عمر، وتقدم حديثه لا ينظر الله فى باب زيد وحدث في صلاة الليل فى باب نافع. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: درختوں میں سے ایک ایسا درخت ہے جس کے پتے (سارا سال) نہیں گرتے اور اس کی مثال مسلمان آدمی کی طرح ہے، مجھے بتاؤ کہ یہ کون سا درخت ہے؟ تو لوگ جنگل کے درختوں کے بارے میں سوچنے لگے اور میرے دل میں آیا کہ یہ کھجور کا درخت ہے لیکن میں حیا کی وجہ سے نہ بولا: پھر لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہمیں بتائیے کہ یہ کون سا درخت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کھجور کا درخت ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: پھر میں نے (اپنے والد) عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے وہ بات کہی جو میرے دل میں آئی تھی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تم یہ بات (اس وقت) کہہ دیتے تو میرے نزدیک فلاں فلاں چیز سے بھی زیادہ پسندیدہ ہوتی۔ عبداللہ بن دینار کی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کردہ حدیثیں مکمل ہو گئیں اور ایک حدیث زید (بن اسلم) کے باب [ ح ۱۶۵] میں گزر چکی ہے اور دوسری نافع کے باب [ ح ۲۰۲] میں گزر چکی ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 630]

تخریج الحدیث: [وأخرجه الجوهري486، من حديث مالك به ورواه البخاري 131، من حديث مالك، ومسلم 2811، من حديث عبدالله بن دينار به]
تفقه:
➊ یہ روایت محمد بن الحسن الشیبانی کی طرف منسوب [الموطأ ص399، 400 ح964] میں بھی امام مالک کی سند سے موجود ہے۔
➋ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بہت بڑے عالم تھے۔
➌ علم کی باتیں پوچھنے اور بتانے سے شرم نہیں کرنی چاہئے۔
➍ کھجور کا درخت برکت والا درخت ہے۔
➎ بعض اوقات پہیلی نما سوال کرکے شاگردوں کے علم کا امتحان لیا جاسکتا ہے۔
➏ علم سمجھنے کے لئے پوری کوشش کے ساتھ ہر وقت مصروف رہنا چاہئے۔
➐ اگر شریعت کی مخالفت نہ ہو رہی ہو تو ہر وقت بڑوں کا احترام ضروری ہے۔
➑ کسی چیز کے ساتھ مشابہت کا یہ مطلب نہیں کہ دونوں چیزیں ہر صفت میں ایک جیسی ہوں۔
➒ صحیح سچے مسلمان کا کتاب وسنت کے مطابق ہر کام خیر ہی خیر ہوتا ہے۔
➓ مزید فوائد کے لئے دیکھئے [فتح الباري 1/145 147 ح61]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 298   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 61  
´لفظ «حدثنا أو، أخبرنا وأنبأنا» استعمال کرنا صحیح ہے`
«. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا وَإِنَّهَا مَثَلُ الْمُسْلِمِ، فَحَدِّثُونِي مَا هِيَ؟ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درختوں میں ایک درخت ایسا ہے کہ اس کے پتے نہیں جھڑتے اور مسلمان کی مثال اسی درخت کی سی ہے۔ بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 61]

تشریح:
اس روایت کو حضرت امام قدس سرہ اس باب میں اس لیے لائے ہیں کہ اس میں لفظ «حدثنا وحدثوني» خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی زبانوں سے بولے گئے ہیں۔ پس ثابت ہو گیا کہ یہ اصطلاحات عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروج ہیں۔ بلکہ خود قرآن مجید ہی سے ان سب کا ثبوت ہے۔ جیسا کہ سورۃ تحریم میں ہے «قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَكَ هَـذَا قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ» [66-التحريم:3] (اس عورت نے کہا کہ آپ کو اس بارے میں کس نے خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ کو اس نے خبر دی جو جاننے والا خبر رکھنے والا پروردگار عالم ہے۔) پس منکرین حدیث کی یہ ہفوات کہ علم حدیث عہد نبوی کے بعد کی ایجاد ہے بالکل غلط اور قرآن مجید کے بالکل خلاف اور واقعات کے بھی خلاف ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 61   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 62  
´طالب علموں کا امتحان لینا`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا وَإِنَّهَا مَثَلُ الْمُسْلِمِ، حَدِّثُونِي مَا هِيَ؟ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ (ایک مرتبہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے کہ اس کے پتے نہیں جھڑتے اور مسلمان کی بھی یہی مثال ہے بتلاؤ وہ کون سا درخت ہے؟ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 62]

تشریح:
اس حدیث اور واقعہ نبوی سے طالب علموں کا امتحان لینا ثابت ہوا۔ جب کہ کھجور کے درخت سے مسلمان کی تشبیہ اس طرح ہوئی کہ مسلمان «متوكل على الله» ہو کر ہر حال میں ہمیشہ خوش و خرم رہتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 62   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 131  
´حصول علم میں شرمانا مناسب نہیں ہے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ مِنَ الشَّجَرِ شَجَرَةً لَا يَسْقُطُ وَرَقُهَا وَهِيَ مَثَلُ الْمُسْلِمِ، حَدِّثُونِي مَا هِيَ؟ فَوَقَعَ النَّاسُ فِي شَجَرِ الْبَادِيَةِ، وَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَاسْتَحْيَيْتُ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنَا بِهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هِيَ النَّخْلَةُ "، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَحَدَّثْتُ أَبِي بِمَا وَقَعَ فِي نَفْسِي، فَقَالَ: لَأَنْ تَكُونَ قُلْتَهَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَكُونَ لِي كَذَا وَكَذَا . . .»
. . . عبداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک مرتبہ) فرمایا کہ درختوں میں سے ایک درخت (ایسا) ہے۔ جس کے پتے (کبھی) نہیں جھڑتے اور اس کی مثال مسلمان جیسی ہے۔ مجھے بتلاؤ وہ کیا (درخت) ہے؟ تو لوگ جنگلی درختوں (کی سوچ) میں پڑ گئے اور میرے دل میں آیا (کہ میں بتلا دوں) کہ وہ کھجور (کا پیڑ) ہے، عبداللہ کہتے ہیں کہ پھر مجھے شرم آ گئی (اور میں چپ ہی رہا) تب لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ہی (خود) اس کے بارہ میں بتلائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، وہ کھجور ہے۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ میرے جی میں جو بات تھی وہ میں نے اپنے والد (عمر رضی اللہ عنہ) کو بتلائی، وہ کہنے لگے کہ اگر تو (اس وقت) کہہ دیتا تو میرے لیے ایسے ایسے قیمتی سرمایہ سے زیادہ محبوب ہوتا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ الْحَيَاءِ فِي الْعِلْمِ:: 131]

تشریح:
اس سے قبل بھی دوسرے باب کے تحت یہ حدیث آ چکی ہے۔ یہاں اس لیے بیان کی ہے کہ اس میں شرم کا ذکر ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اگر شرم نہ کرتے تو جواب دینے کی فضیلت انہیں حاصل ہو جاتی، جس کی طرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اشارہ فرمایا کہ اگر تم بتلا دیتے تو میرے لیے بہت بڑی خوشی ہوتی۔ اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ ایسے موقع پر شرم سے کام نہ لینا چاہئیے۔ اس سے اولاد کی نیکیوں اور علمی صلاحیتوں پر والدین کا خوش ہونا بھی ثابت ہوا جو ایک فطری امر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 131   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4698  
4698. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں تھے کہ آپ نے صحابہ سے پوچھا: مجھے اس درخت کے متعلق بتاؤ جو بندہ مسلم سے مشابہ ہے یا مرد مسلم کی مانند ہے جس کے پتے نہیں گرتے اور نہ یہ ہوتا ہے، نہ یہ ہوتا ہے اور نہ یہ ہوتا ہے۔ وہ اپنا پھل ہر موسم میں دیتا ہے۔ حضرت ابن عمر کہتے ہیں: میرے دل میں خیال آیا وہ کھجور کا درخت ہے لیکن میں نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر و عمر ؓ جیسے بزرگ خاموش بیٹھے ہیں تو میں نے بھی جواب دینا مناسب نہ خیال کیا۔ جب انہوں نے کوئی جواب نہ دیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ کھجور کا درخت ہے۔ جب ہم اس مجلس سے اٹھ آئے تو میں نے حضرت عمر ؓ سے کہا: ابا جان، اللہ کی قسم! میرے دل میں یہ بات آئی تھی کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ انہوں نے فرمایا: تمہیں جواب دینے سے کس چیز نے روکا تھا؟ ابن عمر ؓ نے کہا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4698]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ نے اس درخت کی تین صفتیں اشاروں میں بیان فرمائیں جو یہ تھیں کہ اس کا میوہ کبھی ختم نہیں ہوتا، اس کا سایہ کبھی نہیں مٹتا، اس کا فائدہ کسی بھی حالت میں معدوم نہیں ہوتا۔
اس حدیث کے اس باب میں لانے سے حضرت امام بخاریؒ کی یہ غرض ہے کہ اس آیت میں شجرہ طیبہ سے کھجور کا درخت مراد ہے۔
ناپاک درخت سے اندر ائن کا درخت مراد ہے ناپاک کا مطلب یہ ہے کہ وہ کڑوا کسیلا ہے۔
ناپاک کے معنی یہاں گندہ نجس نہیں ہے۔
ویسے اندرائن کا پھل بہت سے امراض کے لئے اکسیر ہے۔
﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا﴾ (البقرة: 29)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4698   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4698  
4698. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں تھے کہ آپ نے صحابہ سے پوچھا: مجھے اس درخت کے متعلق بتاؤ جو بندہ مسلم سے مشابہ ہے یا مرد مسلم کی مانند ہے جس کے پتے نہیں گرتے اور نہ یہ ہوتا ہے، نہ یہ ہوتا ہے اور نہ یہ ہوتا ہے۔ وہ اپنا پھل ہر موسم میں دیتا ہے۔ حضرت ابن عمر کہتے ہیں: میرے دل میں خیال آیا وہ کھجور کا درخت ہے لیکن میں نے دیکھا کہ حضرت ابوبکر و عمر ؓ جیسے بزرگ خاموش بیٹھے ہیں تو میں نے بھی جواب دینا مناسب نہ خیال کیا۔ جب انہوں نے کوئی جواب نہ دیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ کھجور کا درخت ہے۔ جب ہم اس مجلس سے اٹھ آئے تو میں نے حضرت عمر ؓ سے کہا: ابا جان، اللہ کی قسم! میرے دل میں یہ بات آئی تھی کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ انہوں نے فرمایا: تمہیں جواب دینے سے کس چیز نے روکا تھا؟ ابن عمر ؓ نے کہا:۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4698]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب سوال کیا تو آپ جمار کھارہے تھے۔
(صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2209)
حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ آپ کے جمار کھانے کی وجہ سے میرے دل میں خیال آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔
(فتح الباري: 193/1)

رسول اللہ ﷺ نے اس کی تین صفات بیان کیں۔
راوی نے انھیں تین دفعہ لا۔
ولا۔
ولا کہہ کربیان کردیا یعنی نہ تواس کا پھل ختم ہوتا ہے اور نہ اس کا سایہ ختم ہوتا ہے اور نہ اس کا نفع ختم ہوتا ہے کھجور کا کوئی جزبےکار نہیں جاتااس کا پھل نہایت شریں لذیز اور مفید ہے۔
اس کا پھل کچا اور پختہ ہر طرح کھایا جاتا ہے پھر پختہ ہونے کے بعد اسے خشک کر کے سارا سال استعمال کیا جاتا ہے اس کی گٹھلیاں چوپایوں کی خوراک ہے، انھیں پیس کر اطباء حضرات مختلف ادویات میں استعمال کرتے ہیں۔
یہ درخت ہمیشہ ہرا بھرا رہتا ہے موسم خزاں میں بھی اس کے پتے نہیں کرتے اس کے تنے مکانوں میں ستونوں اور شہتیر کے طور پر استعمال ہوتے ہیں اس کے پتوں سے چٹائیاں ٹوکرے اور پنکھے بنائے جاتے ہیں اس کی چھال تکیوں اور گدوں میں بھری جاتی ہے۔

اسے بندہ مسلم سے تشبیہ دی ہے کہ مسلم کامل کا ہر کام نفع مند اور ثمرآزر ہوتا ہے جیسا کہ ایک روایت میں ہے درختوں یں سے ایک د رخت ہے جس کی برکات بندہ مسلم کی برکات کی طرح ہیں۔
(صحیح البخاري، الأطعمة، حدیث: 4454)
اللہ نے بھی آیت کریمہ میں شجرہ طیبہ کی چار صفات بیان کی ہیں۔
وہ طیب اور پاکیزہ ہے۔
اس کی یہ عمدگی خواہ شکل و صورت کے اعتبار سے ہو یا پھل پھول کے اعتبار سے یا پھل کے خوش ذائقہ میٹھے اور خوشبودار ہونے کے اعتبار سے ہو۔
اس کی جڑیں زمین میں خوب مستحکم اور گہرائی تک پیوست ہو چکی ہیں اور اس قدر مضبوط ہیں جو اپنے طویل القامت درخت کا بوجھ برداشت کر سکتی ہیں۔
اس کی شاخیں آسمانوں میں یعنی بہت بلندی تک چلی گئی ہیں لہٰذا اس سے جو پھل حاصل ہو گا ہوا کی آلودگی اور گندگی وغیرہ کے جراثیم سے پاک ہو گا۔
یہ عام درختوں کی طرح نہیں بلکہ ہر موسم میں پورا پھل دیتا ہے یہ باتیں کھجور کے درخت اور پھل میں پائی جاتی ہیں۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4698