صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
2. بَابُ قَوْلِهِ: {وَلَقَدْ كَذَّبَ أَصْحَابُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِينَ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور بالیقین حجر والوں نے بھی ہمارے رسولوں کو جھٹلایا“۔
حدیث نمبر: 4702
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِأَصْحَابِ الْحِجْرِ:" لَا تَدْخُلُوا عَلَى هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ إِلَّا أَنْ تَكُونُوا بَاكِينَ، فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا بَاكِينَ، فَلَا تَدْخُلُوا عَلَيْهِمْ، أَنْ يُصِيبَكُمْ مِثْلُ مَا أَصَابَهُمْ".
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معن نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب حجر کے متعلق فرمایا تھا کہ اس قوم کی بستی سے جب گزرنا ہی پڑ گیا ہے تو روتے ہوئے گزرو اور اگر روتے ہوئے نہیں گزر سکتے تو پھر اس میں نہ جاؤ۔ کہیں تم پر بھی وہی عذاب نہ آئے جو ان پر آیا تھا۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4702  
4702. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اصحاب الحجر کے متعلق فرمایا تھا: اس قوم کی بستی سے جب گزرنا پڑے تو روتے ہوئے گزرو اور اگر روتے ہوئے نہیں گزر سکتے تو پھر وہاں نہ جاؤ، مبادا تم پر وہی عذاب آ جائے جو ان پر آیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4702]
حدیث حاشیہ:

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ؓ سفر تبوک میں جب حجر کے مقام پر پہنچے تو آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ ان کے کنوؤں سے پانی نہ پئیں اور نہ ڈول بھریں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کی:
ہم نے تو آٹا گوندھ لیا ہے اور پانی بھر لیا ہے آپ نے فرمایا:
آٹا پھینک دو اور پانی بہادو۔
(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3378)
ایک دوسری روایت کے مطابق آپ نے وہ آٹا اونٹوں کو کھلانے کی اجازت دے دی اور آپ نے حکم دیا کہ اس کنویں سے پانی پلاؤ جس سے اونٹنی پانی پیتی تھی، (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3379)
پھر آپ نےچادر سے اپنا سر ڈھانپ لیا اور تیزی سے اپنی سواری کو چلاتے ہوئے وہاں سے نکل گئے۔
(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3380)

ان واقعات سے یہ بتانا مقصود تھا کہ اگر مشرکین مکہ بھی قوم ثمود کی ڈگر پر چل رہے ہیں تو ان کا انجام بھی وہی ہونے والا ہے، لہٰذا ان سے الجھنے کی ضرورت نہیں مناسب وقت آنے پر اللہ تعالیٰ ان سے نمٹ لے گا۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4702