صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
16. سورة النَّحْلِ:
باب: سورۃ النحل کی تفسیر۔
رُوحُ الْقُدُسِ، جِبْرِيلُ، نَزَلَ بِهِ، الرُّوحُ الْأَمِينُ، فِي ضَيْقٍ يُقَالُ: أَمْرٌ ضَيْقٌ وَضَيِّقٌ مِثْلُ هَيْنٍ وَهَيِّنٍ، وَلَيْنٍ وَلَيِّنٍ، وَمَيْتٍ وَمَيِّتٍ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: تَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ تَتَهَيَّأُ سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا، لَا يَتَوَعَّرُ عَلَيْهَا مَكَانٌ سَلَكَتْهُ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فِي تَقَلُّبِهِمْ: اخْتِلَافِهِمْ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: تَمِيدُ تَكَفَّأُ، مُفْرَطُونَ: مَنْسِيُّونَ، وَقَالَ غَيْرُهُ: فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ: هَذَا مُقَدَّمٌ وَمُؤَخَّرٌ، وَذَلِكَ أَنَّ الِاسْتِعَاذَةَ قَبْلَ الْقِرَاءَةِ وَمَعْنَاهَا الِاعْتِصَامُ بِاللَّهِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: تُسِيمُونَ: تَرْعَوْنَ، شَاكِلَتِهِ: نَاحِيَتِهِ، قَصْدُ السَّبِيلِ: الْبَيَانُ الدِّفْءُ مَا اسْتَدْفَأْتَ، تُرِيحُونَ: بِالْعَشِيِّ وَتَسْرَحُونَ بِالْغَدَاةِ، بِشِقِّ: يَعْنِي الْمَشَقَّةَ، عَلَى تَخَوُّفٍ: تَنَقُّصٍ، الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً: وَهِيَ تُؤَنَّثُ وَتُذَكَّرُ، وَكَذَلِكَ النَّعَمُ الْأَنْعَامُ جَمَاعَةُ النَّعَمِ، أَكْنَانٌ: وَاحِدُهَا كِنٌّ مِثْلُ حِمْلٍ وَأَحْمَالٍ، سَرَابِيلَ: قُمُصٌ، تَقِيكُمُ الْحَرَّ: وَأَمَّا سَرَابِيلَ تَقِيكُمْ بَأْسَكُمْ، فَإِنَّهَا الدُّرُوعُ، دَخَلًا بَيْنَكُمْ: كُلُّ شَيْءٍ لَمْ يَصِحَّ فَهُوَ دَخَلٌ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: حَفَدَةً: مَنْ وَلَدَ الرَّجُلُ السَّكَرُ مَا حُرِّمَ مِنْ ثَمَرَتِهَا وَالرِّزْقُ الْحَسَنُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ، وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: عَنْ صَدَقَةَ، أَنْكَاثًا: هِيَ خَرْقَاءُ كَانَتْ إِذَا أَبْرَمَتْ غَزْلَهَا نَقَضَتْهُ، وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: الْأُمَّةُ مُعَلِّمُ الْخَيْرِ، وَالْقَانِتُ الْمُطِيعُ
‏‏‏‏ «نزل به الروح الأمين‏» میں «روح الأمين‏» سے «روح القدس‏» جبرائیل مراد ہیں۔ «في ضيق‏» عرب لوگ کہتے ہیں «أمر ضيق» اور «ضيق» جیسے «هين» اور «وهين» اور «لين» اور «ولين» اور «ميت» اور «وميت‏.‏» ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «في تقلبهم‏» کا معنی ان کے اختلاف میں۔ اور مجاہد نے کہا «تميد» کا معنی جھک جائے، الٹ جائے۔ «مفرطون‏» کا معنی بھلائے گئے۔ دوسرے لوگوں نے کہا «فإذا قرأت القرآن فاستعذ بالله‏» اس آیت میں عبارت آگے پیچھے ہو گئی ہے۔ کیونکہ «اعوذ بالله‏» قرآت سے پہلے پڑھنا چاہئے۔ «لاستعاذة» کے معنی اللہ سے پناہ مانگنا۔ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «تسيمون» کا معنی چراتے ہو۔ «شاكلة» اپنے اپنے طریق پر۔ «قصد السبيل‏» سچے راستے کا بیان کرنا۔ «الدفء» ہر وہ چیز جس سے گرمی حاصل کی جائے، سردی دفع ہو۔ «تريحون‏» شام کو لاتے ہو۔ «تسرحون» صبح کو چرانے لے جاتے ہو۔ «بشق‏» تکلیف اٹھا کر محنت مشقت سے۔ «على تخوف‏» نقصان کر کے۔ «وان لكم في الأنعام لعبرة‏» میں «الأنعام»، «نعم» کی جمع ہے۔ مذکر مؤنث دونوں کو «الأنعام» اور «نعم» کہتے ہیں۔ «سرابيل‏ تقيكم الحر‏» میں «سرابيل‏» سے کرتے اور «سرابيل تقيكم بأسكم‏» میں «سرابيل» سے زرہیں مراد ہیں۔ «دخلا بينكم‏» جو ناجائز بات ہو اس کو «دخل‏.‏» کہتے ہیں۔ جیسے ( «دخل‏.‏» یعنی خیانت)۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «حفدة‏» آدمی کی اولاد۔ «السكر» نشے آور مشروب جو حرام ہے۔ «رزق الحسنا» جس کو اللہ نے حلال کیا۔ اور سفیان بن عیینہ نے «صدقة» ابوالہذیل سے نقل کیا۔ «أنكاثا‏» ٹکڑے ٹکڑے یہ ایک عورت کا ذکر ہے اس کا نام «خرقاء» تھا (جو مکہ میں رہتی تھی) وہ دن بھر سوت کاتتی پھر توڑ توڑ کر پھینک دیتی۔ ابن مسعود نے کہا «لأمة» کا معنی لوگوں کو اچھی باتیں سکھانے والا اور «قانت» کے معنی «مطيع‏» اور فرمانبردار کے ہیں۔