صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابُ قَوْلِهِ: {وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور تم میں سے بعض کو نکمی عمر کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے“۔
رُوحُ الْقُدُسِ، جِبْرِيلُ، نَزَلَ بِهِ، الرُّوحُ الْأَمِينُ، فِي ضَيْقٍ يُقَالُ: أَمْرٌ ضَيْقٌ وَضَيِّقٌ مِثْلُ هَيْنٍ وَهَيِّنٍ، وَلَيْنٍ وَلَيِّنٍ، وَمَيْتٍ وَمَيِّتٍ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: تَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ تَتَهَيَّأُ سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا، لَا يَتَوَعَّرُ عَلَيْهَا مَكَانٌ سَلَكَتْهُ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فِي تَقَلُّبِهِمْ: اخْتِلَافِهِمْ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: تَمِيدُ تَكَفَّأُ، مُفْرَطُونَ: مَنْسِيُّونَ، وَقَالَ غَيْرُهُ: فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ: هَذَا مُقَدَّمٌ وَمُؤَخَّرٌ، وَذَلِكَ أَنَّ الِاسْتِعَاذَةَ قَبْلَ الْقِرَاءَةِ وَمَعْنَاهَا الِاعْتِصَامُ بِاللَّهِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: تُسِيمُونَ: تَرْعَوْنَ، شَاكِلَتِهِ: نَاحِيَتِهِ، قَصْدُ السَّبِيلِ: الْبَيَانُ الدِّفْءُ مَا اسْتَدْفَأْتَ، تُرِيحُونَ: بِالْعَشِيِّ وَتَسْرَحُونَ بِالْغَدَاةِ، بِشِقِّ: يَعْنِي الْمَشَقَّةَ، عَلَى تَخَوُّفٍ: تَنَقُّصٍ، الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً: وَهِيَ تُؤَنَّثُ وَتُذَكَّرُ، وَكَذَلِكَ النَّعَمُ الْأَنْعَامُ جَمَاعَةُ النَّعَمِ، أَكْنَانٌ: وَاحِدُهَا كِنٌّ مِثْلُ حِمْلٍ وَأَحْمَالٍ، سَرَابِيلَ: قُمُصٌ، تَقِيكُمُ الْحَرَّ: وَأَمَّا سَرَابِيلَ تَقِيكُمْ بَأْسَكُمْ، فَإِنَّهَا الدُّرُوعُ، دَخَلًا بَيْنَكُمْ: كُلُّ شَيْءٍ لَمْ يَصِحَّ فَهُوَ دَخَلٌ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: حَفَدَةً: مَنْ وَلَدَ الرَّجُلُ السَّكَرُ مَا حُرِّمَ مِنْ ثَمَرَتِهَا وَالرِّزْقُ الْحَسَنُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ، وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: عَنْ صَدَقَةَ، أَنْكَاثًا: هِيَ خَرْقَاءُ كَانَتْ إِذَا أَبْرَمَتْ غَزْلَهَا نَقَضَتْهُ، وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: الْأُمَّةُ مُعَلِّمُ الْخَيْرِ، وَالْقَانِتُ الْمُطِيعُ
‏‏‏‏ «نزل به الروح الأمين‏» میں «روح الأمين‏» سے «روح القدس‏» جبرائیل مراد ہیں۔ «في ضيق‏» عرب لوگ کہتے ہیں «أمر ضيق» اور «ضيق» جیسے «هين» اور «وهين» اور «لين» اور «ولين» اور «ميت» اور «وميت‏.‏» ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «في تقلبهم‏» کا معنی ان کے اختلاف میں۔ اور مجاہد نے کہا «تميد» کا معنی جھک جائے، الٹ جائے۔ «مفرطون‏» کا معنی بھلائے گئے۔ دوسرے لوگوں نے کہا «فإذا قرأت القرآن فاستعذ بالله‏» اس آیت میں عبارت آگے پیچھے ہو گئی ہے۔ کیونکہ «اعوذ بالله‏» قرآت سے پہلے پڑھنا چاہئے۔ «لاستعاذة» کے معنی اللہ سے پناہ مانگنا۔ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «تسيمون» کا معنی چراتے ہو۔ «شاكلة» اپنے اپنے طریق پر۔ «قصد السبيل‏» سچے راستے کا بیان کرنا۔ «الدفء» ہر وہ چیز جس سے گرمی حاصل کی جائے، سردی دفع ہو۔ «تريحون‏» شام کو لاتے ہو۔ «تسرحون» صبح کو چرانے لے جاتے ہو۔ «بشق‏» تکلیف اٹھا کر محنت مشقت سے۔ «على تخوف‏» نقصان کر کے۔ «وان لكم في الأنعام لعبرة‏» میں «الأنعام»، «نعم» کی جمع ہے۔ مذکر مؤنث دونوں کو «الأنعام» اور «نعم» کہتے ہیں۔ «سرابيل‏ تقيكم الحر‏» میں «سرابيل‏» سے کرتے اور «سرابيل تقيكم بأسكم‏» میں «سرابيل» سے زرہیں مراد ہیں۔ «دخلا بينكم‏» جو ناجائز بات ہو اس کو «دخل‏.‏» کہتے ہیں۔ جیسے ( «دخل‏.‏» یعنی خیانت)۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «حفدة‏» آدمی کی اولاد۔ «السكر» نشے آور مشروب جو حرام ہے۔ «رزق الحسنا» جس کو اللہ نے حلال کیا۔ اور سفیان بن عیینہ نے «صدقة» ابوالہذیل سے نقل کیا۔ «أنكاثا‏» ٹکڑے ٹکڑے یہ ایک عورت کا ذکر ہے اس کا نام «خرقاء» تھا (جو مکہ میں رہتی تھی) وہ دن بھر سوت کاتتی پھر توڑ توڑ کر پھینک دیتی۔ ابن مسعود نے کہا «لأمة» کا معنی لوگوں کو اچھی باتیں سکھانے والا اور «قانت» کے معنی «مطيع‏» اور فرمانبردار کے ہیں۔
حدیث نمبر: 4707
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مُوسَى أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْأَعْوَرُ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَدْعُو:" أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ وَالْكَسَلِ، وَأَرْذَلِ الْعُمُرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ، وَفِتْنَةِ الدَّجَّالِ، وَفِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہارون بن موسیٰ ابوعبداللہ اعور نے بیان کیا، ان سے شعیب نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کیا کرتے تھے «أعوذ بك من البخل والكسل،‏‏‏‏ وأرذل العمر،‏‏‏‏ وعذاب القبر،‏‏‏‏ وفتنة الدجال،‏‏‏‏ وفتنة المحيا والممات ‏"‏‏.‏» کہ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بخل سے، سستی سے، ارذل عمر سے (نکمی اور خراب عمر 80 یا 90 سال کے بعد) عذاب قبر سے، دجال کے فتنے سے اور زندگی اور موت کے فتنے سے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3484  
´بعض چیزوں سے پناہ طلب کرنے کا باب۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اکثر و بیشتر ان الفاظ سے دعا مانگتے سنتا تھا: «اللهم إني أعوذ بك من الهم والحزن والعجز والكسل والبخل وضلع الدين وغلبة الرجال» اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکرو غم سے، عاجزی سے اور کاہلی سے اور بخیلی سے اور قرض کے غلبہ سے اور لوگوں کے قہر و ظلم و زیادتی سے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3484]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں فکر وغم سے،
عاجزی سے اور کاہلی سے اور بخیلی سے اور قرض کے غلبہ سے اور لوگوں کے قہر وظلم وزیادتی سے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3484   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1540  
´(بری باتوں سے اللہ کی) پناہ مانگنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: «اللهم إني أعوذ بك من العجز، والكسل، والجبن، والبخل، والهرم، وأعوذ بك من عذاب القبر، وأعوذ بك من فتنة المحيا والممات» اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں عاجزی سے، سستی سے، بزدلی سے، بخل اور کنجوسی سے اور انتہائی بڑھاپے سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں عذاب قبر سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کے فتنوں سے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1540]
1540. اردو حاشیہ: دین و دنیا کی بھلائیوں کے حصول میں محرومی تین اسباب سے ہوتی ہے کہ انسان میں ان کے کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی ‘یاسستی غالب آ جاتی ہے ‘ یا جرات کا فقدان ہوتا ہے۔ «بخل» ‏‏‏‏ سےمراد وہ کیفیت ہے کہ جہاں خرچ کرنا مشروع و مستحب ہو ‘ لیکن انسان وہاں خرچ نہ کرے۔ «ھرم» ‏‏‏‏ بڑی عمر ہونے کی یہ حالت کہ انسان دوسروں پر بوجھ بن جائے۔نہ عبادت کر سکے اور نہ دنیا کا کام۔زندگی کے فتنے یہ کہ آزمائشیں اورپریشانیاں غالب آ جائیں ‘ نیکی کا کاموں سے محروم رہے۔موت کا فتنہ یہ کہ انسان اعمال خیر سے محروم رہ جائے یا مرتے دم کلمہ توحید نصیب نہ ہو۔ اور قبر آخرت کی سب سے پہلی منزل ہے اس میں بندہ اگر پھسل یا پھنس گیا تو بہت بڑی ہلاکت ہے اور عذاب قبر سے تعوذ ‘امت کے لیے تعلیم ہے ورنہ انبیائے کرام علیہم السلام اس سے محفوظ ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1540   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4707  
4707. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے: اے اللہ! میں بخل سے، سستی سے، نکمی عمر سے، عذاب قبر سے اور فتنہ دجال سے، نیز زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4707]
حدیث حاشیہ:
نکمی عمر 80 یا 90 سال کے بعد ہوتی ہے۔
جس میں آدمی بوڑھا ہو کر بالکل بے عقل ہو جاتا ہے، ہر آدمی کی قوت اور طاقت پر منحصر ہے۔
کوئی خاص میعاد مقرر نہیں کی جا سکتی۔
زندگی کا فتنہ یہ ہے کہ دنیا میں ایسا مشغول ہو جائے کہ اللہ کی یاد بھول جائے فرائض اور احکام شریعت کو ادا نہ کرے، موت کا فتنہ سکرات کے وقت شروع ہوتا ہے۔
اس وقت شیطان آدمی کا ایمان بگاڑنا چاہتا ہے۔
دوسری حدیث میں دعا آئی ہے أعوذُ بِكَ من أن یتخبطنيَ الشیطانُ عندَ الموتِ۔
یعنی اے اللہ! تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ موت کے وقت مجھ کو شیطان گمراہ کردے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4707   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4707  
4707. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے: اے اللہ! میں بخل سے، سستی سے، نکمی عمر سے، عذاب قبر سے اور فتنہ دجال سے، نیز زندگی اور موت کے فتنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4707]
حدیث حاشیہ:
نکمی عمر سے مراد زندگی کا وہ حصہ ہے جس میں انسان بوڑھا ہو کر بے عقل ہو جاتا ہے، اس کے لیے کوئی خاص میعاد مقرر نہیں بلکہ ہر آدمی کی طاقت اور قوت پر منحصر ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4707