صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
3. بَابُ قَوْلِهِ: {أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ} :
باب: آیت «أسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام» کی تفسیر۔
أَخْبَرْنَاهُمْ أَنَّهُمْ سَيُفْسِدُونَ، وَالْقَضَاءُ عَلَى وُجُوهٍ، وَقَضَى رَبُّكَ: أَمَرَ رَبُّكَ وَمِنْهُ الْحُكْمُ، إِنَّ رَبَّكَ يَقْضِي بَيْنَهُمْ، وَمِنْهُ الْخَلْقُ، فَقَضَاهُنَّ: سَبْعَ سَمَوَاتٍ خَلَقَهُنَّ، نَفِيرًا: مَنْ يَنْفِرُ مَعَهُ، وَلِيُتَبِّرُوا: يُدَمِّرُوا، مَا عَلَوْا، حَصِيرًا: مَحْبِسًا مَحْصَرًا، حَقَّ: وَجَبَ، مَيْسُورًا: لَيِّنًا، خِطْئًا: إِثْمًا وَهُوَ اسْمٌ مِنْ خَطِئْتَ وَالْخَطَأُ مَفْتُوحٌ مَصْدَرُهُ مِنَ الْإِثْمِ خَطِئْتُ بِمَعْنَى أَخْطَأْتُ، تَخْرِقَ: تَقْطَعَ، وَإِذْ هُمْ نَجْوَى: مَصْدَرٌ مِنْ نَاجَيْتُ فَوَصَفَهُمْ بِهَا وَالْمَعْنَى يَتَنَاجَوْنَ، رُفَاتًا: حُطَامًا، وَاسْتَفْزِزْ: اسْتَخِفَّ، بِخَيْلِكَ: الْفُرْسَانِ وَالرَّجْلُ وَالرِّجَالُ الرَّجَّالَةُ وَاحِدُهَا رَاجِلٌ مِثْلُ صَاحِبٍ وَصَحْبٍ وَتَاجِرٍ وَتَجْرٍ، حَاصِبًا: الرِّيحُ الْعَاصِفُ وَالْحَاصِبُ أَيْضًا مَا تَرْمِي بِهِ الرِّيحُ وَمِنْهُ، حَصَبُ جَهَنَّمَ: يُرْمَى بِهِ فِي جَهَنَّمَ وَهُوَ حَصَبُهَا، وَيُقَالُ حَصَبَ فِي الْأَرْضِ ذَهَبَ وَالْحَصَبُ مُشْتَقٌّ مِنَ الْحَصْبَاءِ وَالْحِجَارَةِ، تَارَةً: مَرَّةً وَجَمَاعَتُهُ تِيَرَةٌ وَتَارَاتٌ، لَأَحْتَنِكَنَّ:، يُقَالُ: احْتَنَكَ فُلَانٌ مَا عِنْدَ فُلَانٍ مِنْ عِلْمٍ اسْتَقْصَاهُ، طَائِرَهُ: حَظَّهُ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كُلُّ سُلْطَانٍ فِي الْقُرْآنِ فَهُوَ حُجَّةٌ، وَلِيٌّ مِنَ الذُّلِّ: لَمْ يُحَالِفْ أَحَدًا.
‏‏‏‏ اور «قضاء» کے کئی معانی آئے ہیں۔ جیسے آیت «وقضى ربك‏ ان لا تعبدوا» میں یہ معنی ہے کہ اللہ نے حکم دیا اور فیصلہ کرنے کے بھی معنی ہیں جیسے آیت «إن ربك يقضي بينهم‏» میں ہے اور پیدا کرنے کے بھی معنی میں ہے جیسے «فقضاهن سبع سموات‏» میں ہے۔ «نفيرا‏» وہ لوگ جو آدمی کے ساتھ لڑنے کو نکلیں۔ «وليتبروا‏ ما علوا‏» یعنی جن شہروں سے غالب ہوں ان کو تباہ کریں۔ «حصيرا‏» قید خانہ، جیل حق واجب ہوا۔ «ميسورا‏» نرم، ملائم۔ «خطئا‏» گناہ یہ اسم ہے «خطئت» ‏‏‏‏ سے اور «خطئا‏» بالفتح مصدر ہے یعنی گناہ کرنا۔ «خطئت» ‏‏‏‏ بکسر طاء اور «اخطات» دونوں کا ایک ہی معنی ہے یعنی میں نے قصور کیا غلطی کی۔ «لن تخرق‏» تو زمین کو طے نہیں کر سکے گا۔ (کیونکہ زمین بہت بڑی ہے) «نجوى‏» مصدر ہے۔ «ناجيت» ‏‏‏‏ سے یہ ان لوگوں کی صفت بیان کی ہے۔ یعنی آپس میں مشورہ کرتے ہیں۔ «رفاتا‏» ٹوٹے ہوئے ریزہ ریزہ۔ «واستفزز‏» دیوانہ کر دے گمراہ کر دے۔ «بخيلك‏» اپنے سواروں سے۔ «رجل» پیادے اس کا مفرد «راجل» ہے جیسے «صاحب» کی جمع «صحب» اور «تاجر» کی جمع «تجر‏.‏» ہے۔ «حاصبا‏» آندھی۔ «حاصب» اس کو بھی کہتے ہیں جو آندھی اڑا کر لائے (ریت کنکر وغیرہ) اسی سے ہے «حصب جهنم‏» یعنی جو جہنم میں ڈالا جائے گا وہی جہنم کا «حصب» ہے۔ عرب لوگ کہتے ہیں «حصب في الأرض» زمین میں گھس گیا یہ «حصب»، «حصباء» سے نکلا ہے۔ «حصباء» پتھروں سنگریزوں کو کہتے ہیں۔ «تارة‏» ایک بار۔ اس کی جمع «تيرة» اور «تارات» آتی ہے۔ «لأحتنكن‏» ان کو تباہ کر دوں گا، جڑ سے کھود ڈالوں گا۔ عرب لوگ کہتے ہیں «احتنك فلان ما عند فلان» یعنی اس کو جتنی باتیں معلوم تھیں وہ سب اس نے معلوم کر لیں کوئی بات باقی نہ رہی۔ «طائره‏» اس کا نصیبہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا قرآن میں جہاں جہاں «سلطان» کا لفظ آیا ہے اس کا معنی دلیل اور حجت ہے۔ «ولي من الذل‏» یعنی اس نے کسی سے اس لیے دوستی نہیں کی ہے کہ وہ اس کو ذلت سے بچائے۔
حدیث نمبر: 4709
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ. ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ ابْنُ الْمُسَيَّبِ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ:" أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ بِإِيلِيَاءَ بِقَدَحَيْنِ مِنْ خَمْرٍ وَلَبَنٍ، فَنَظَرَ إِلَيْهِمَا، فَأَخَذَ اللَّبَنَ، قَالَ جِبْرِيلُ:" الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَاكَ لِلْفِطْرَةِ، لَوْ أَخَذْتَ الْخَمْرَ غَوَتْ أُمَّتُكَ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا، کہا ہم کو یونس بن یزید نے خبر دی (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس بن یزید نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے کہ ابن مسیب نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ معراج کی رات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیت المقدس میں دو پیالے پیش کئے گئے ایک شراب کا اور دوسرا دودھ کا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو دیکھا پھر دودھ کا پیالہ اٹھا لیا۔ اس پر جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ تمام حمد اس اللہ کے لیے ہے جس نے آپ کو فطرت (اسلام) کی ہدایت کی۔ اگر آپ شراب کا پیالہ اٹھا لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4709  
4709. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: معراج کی رات رسول اللہ ﷺ کو بیت المقدس میں دو پیالے پیش کیے گئے: ایک میں شراب تھی اور دوسرے میں دودھ تھا۔ آپ ﷺ نے ان دونوں کو دیکھا پھر دودھ کا پیالہ اٹھا لیا۔ حضرت جبرئیل ؑ نے کہا: تمام تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے آپ کو فطرت کی طرف رہنمائی فرمائی۔ اگر آپ شراب کا پیالہ اٹھا لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4709]
حدیث حاشیہ:

حضرت انس ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
میرے پاس تین پیالے لائے گئے ایک میں دودھ دوسرے میں شہداور تیسرے میں شراب تھی۔
میں نے دودھ والا پیالہ لیا اور اسے نوش کر لیا۔
مجھے کہا گیا کہ تونے اور تیری امت نے فطرت کا انتخاب کیا ہے۔
(صحیح البخاري، الأشربة، حدیث: 5610)
حقیقت یہ ہے کہ واقعہ معراج کے وقت آپ کو تین پیالے پیش کیے گئے تھے لیکن ہر روای نے اپنی معلومات کے مطابق اس واقعے کو بیان کیا ہے پھر یہ مشروبات رسول اللہ ﷺ کو دو مرتبہ پیش کیے گئے۔
ایک مرتبہ تو معراج سے پہلے بیت المقدس میں دوسری مرتبہ سدرہ المنتہیٰ کے پاس جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں اس کی صراحت ہے۔
(صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث: 3887)

حدیث میں شراب کے بجائے دودھ کو اختیار کی وجہ تو بیان کی گئی ہے کہ اس سے گمراہی کا سدباب مقصود تھا لیکن شہد کے مقابلے میں دودھ کا انتخاب کیوں ہوا اس کی غالباً وجہ یہ تھی کہ دودھ شہد کے مقابلے میں زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے اور اس سے ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں اور گوشت بھی پیدا ہوتا ہے۔
حافظ ابن حجرؒ نے یہ بھی لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو پیاس لگی تھی جیسا کہ بعض روایات میں آتا ہے اور پیاس بجھانے کے لیے تو شہد کے بجائے دودھ ہی فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
واللہ اعلم۔
(فتح الباری: 10/93)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4709