صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
3. بَابُ قَوْلِهِ: {أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ} :
باب: آیت «أسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام» کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 4710
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَمَّا كَذَّبَنِي قُرَيْشٌ قُمْتُ فِي الْحِجْرِ، فَجَلَّى اللَّهُ لِي بَيْتَ الْمَقْدِسِ، فَطَفِقْتُ أُخْبِرُهُمْ عَنْ آيَاتِهِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِ. زَادَ يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ. حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَمِّهِ: لَمَّا كَذَّبَنِي قُرَيْشٌ حِينَ أُسْرِيَ بِي إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ نَحْوَهُ، قَاصِفًا: رِيحٌ تَقْصِفُ كُلَّ شَيْءٍ.
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے یونس بن یزید نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور انہوں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب قریش نے مجھ کو واقعہ معراج کے سلسلہ میں جھٹلایا تو میں (کعبہ کے) مقام حجر میں کھڑا ہوا تھا اور میرے سامنے پورا بیت المقدس کر دیا گیا تھا۔ میں اسے دیکھ دیکھ کر اس کی ایک ایک علامت بیان کرنے لگا۔ یعقوب بن ابراہیم نے اپنی روایت میں یہ زیادہ کیا کہ ہم سے ابن شہاب کے بھتیجے نے اپنے چچا ابن شہاب سے بیان کیا کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) جب مجھے قریش نے بیت المقدس کے معراج کے سلسلہ میں جھٹلایا، پھر پہلی حدیث کی طرح بیان کیا۔ «قاصفا‏» وہ آندھی جو ہر چیز کو تباہ کر دے۔
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3886  
´بیت المقدس تک جانے کا قصہ`
«. . . يَقُولُ:" لَمَّا كَذَّبَنِي قُرَيْشٌ قُمْتُ فِي الْحِجْرِ فَجَلَا اللَّهُ لِي بَيْتَ الْمَقْدِسِ فَطَفِقْتُ أُخْبِرُهُمْ عَنْ آيَاتِهِ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهِ. . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب قریش نے (معراج کے واقعہ کے سلسلے میں) مجھ کو جھٹلایا تو میں حطیم میں کھڑا ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے میرے لیے بیت المقدس کو روشن کر دیا اور میں نے اسے دیکھ کر قریش سے اس کے پتے اور نشان بیان کرنا شروع کر دیئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ: 3886]

تخريج الحديث:
[109- البخاري فى: 63 كتاب مناقب الانصار: 41 باب حديث الاسراء۔۔۔ 3886، مسلم 170، ترمذي 3133]

لغوی توضیح:
«الحِجر» مراد حطیم ہے، یعنی بیت اللہ کے عراقی اور شامی کونے کے درمیان وہ جگہ جس کے گرد دائرے کی شکل میں ایک چھوٹی سی دیوار بنائی گئی ہے۔ جس کا مقصد ہے کہ لوگ اس کے باہر سے طواف کریں کیونکہ وہ جگہ بھی بیت اللہ کا حصہ ہے۔ دراصل ایامِ جاہلیت میں کفار مکہ کی حلال کمائی کم پڑ جانے کی وجہ سے اس جگہ کو بغیر تعمیر کیے ہی چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس جگہ کو «حِجْرِ اِسْمَاعِيْل» بھی کہا جاتا ہے۔
«فَجَلَا» کھول دیا، ظاہر کر دیا۔

فھم الحدیث:
دراصل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قریش کے سامنے واقعہ معراج بیان کیا تو انہوں نے اس کی شدید مخالفت کی اور چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ کے دوران بیت المقدس کا بھی ذکر فرمایا تھا اس لیے قریش نے آپ سے بیت المقدس کی صفات کے بارے میں سوال کر لیا، تب اللہ تعالیٰ نے آپ کے سامنے بیت المقدس ظاہر فرما دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے سامنے بیت المقدس کی نشانیاں اور صفات بیان کرنا شروع کر دیں۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 109   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4710  
4710. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا: جب قریش نے مجھے جھوٹا قرار دیا تو میں حطیم میں کھڑا ہوا۔ میرے سامنے پورا بیت المقدس کر دیا گیا۔ میں اسے دیکھ دیکھ کر انہیں اس کی ایک ایک علامت بیان کرنے لگا۔ ابن شہاب زہری ہی کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے: جب قریش نے واقعہ معراج کے متعلق میری تکذیب کی۔ پھر پہلی حدیث کی طرح اسے بیان کیا۔ قَاصِفًا سے مراد وہ آندھی جو ہر چیز کو تباہ کر دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4710]
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں ہے کہ قریش کے کچھ لوگ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے پاس پہنچے اور ان سے کہا:
تمھارے رسول اللہ ﷺ تو یہ کہتے ہیں کہ وہ رات کو بیت المقدس گئے اور وہاں سے اس رات واپس آئے حالانکہ وہاں قافلہ ایک مہینے میں جاتا اور ایک مہینے میں واپس آتا ہے یہ سن کر حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا واقعی انھوں نے یہ فرمایا ہے؟ انھوں نے کہا:
ہاں آپ نے فرمایا:
اگر رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا ہے تو میں اس کی تصدیق کرتا ہوں۔
(فتح الباری: 498/9)
اس روزے سے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنه کو صدیق کا خطاب ملا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4710