صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
4M. بَابُ قَوْلِهِ: {إِذَا أَرَدْنَا أَنْ نُهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا} الآيَةَ:
باب: آیت «إذا أردنا أن نهلك قرية أمرنا مترفيها» کی تفسیر۔
كَرَّمْنَا: وَأَكْرَمْنَا وَاحِدٌ، ضِعْفَ الْحَيَاةِ، عَذَابَ الْحَيَاةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ عَذَابَ الْمَمَاتِ خِلَافَكَ، وَخَلْفَكَ سَوَاءٌ وَنَأَى، تَبَاعَدَ شَاكِلَتِهِ، نَاحِيَتِهِ، وَهِيَ مِنْ شَكْلِهِ صَرَّفْنَا، وَجَّهْنَا قَبِيلًا، مُعَايَنَةً وَمُقَابَلَةً، وَقِيلَ الْقَابِلَةُ لِأَنَّهَا مُقَابِلَتُهَا، وَتَقْبَلُ وَلَدَهَا خَشْيَةَ الْإِنْفَاقِ، أَنْفَقَ الرَّجُلُ أَمْلَقَ وَنَفِقَ الشَّيْءُ ذَهَبَ قَتُورًا، مُقَتِّرًا لِلْأَذْقَانِ، مُجْتَمَعُ اللَّحْيَيْنِ وَالْوَاحِدُ ذَقَنٌ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ مَوْفُورًا، وَافِرًا تَبِيعًا، ثَائِرًا وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: نَصِيرًا خَبَتْ، طَفِئَتْ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَا تُبَذِّرْ، لَا تُنْفِقْ فِي الْبَاطِلِ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ، رِزْقٍ مَثْبُورًا، مَلْعُونًا لَا تَقْفُ، لَا تَقُلْ فَجَاسُوا، تَيَمَّمُوا يُزْجِي الْفُلْكَ يُجْرِي الْفُلْكَ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ، لِلْوُجُوهِ.
‏‏‏‏ «كرمنا‏» اور «أكرمنا» دونوں کے ایک ہی معنی ہیں۔ «ضعف الحياة‏» زندگی کا عذاب۔ «ضعف الممات» موت کا عذاب۔ «خلافك‏» اور «خلفك» (دونوں قرآتیں ہیں) دونوں کے ایک معنی ہیں یعنی تمہارے بعد۔ «نأى‏» کے معنی دور ہوا۔ «شاكلته‏» اپنے راستے پر (یا اپنی زینت پر) یہ «شكل» سے نکلا ہے یعنی جوڑ اور شبیہ۔ «صرفنا‏» سامنے لائے بیان کئے۔ «قبيلا‏» آنکھوں کے سامنے روبرو بعضوں نے کہا یہ «قابلة» سے نکلا ہے جس کے معنی دائی، جنانے والی کے ہیں۔ کیونکہ وہ بھی جناتے وقت عورت کے مقابل ہوتی ہے اس کا بچہ قبول کرتی ہے یعنی سنبھالتی ہے۔ «الإنفاق‏» کے معنی مفلس ہو جانا۔ کہتے ہیں «أنفق الرجل» جب وہ مفلس ہو جائے اور «نفق الشىء» جب کوئی چیز تمام ہو جائے۔ «قتورا‏» کے معنی بخیل۔ «أذقان‏»، «ذقن‏» کی جمع ہے جہاں دونوں جبڑے ملتے ہیں یعنی ٹھڈی۔ مجاہد نے کہا «موفورا‏ وافرا» کے معنی میں ہے (یعنی پورا) «تبيعا‏» بدلہ لینے والا۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «لا تبذر» کا معنی یہ ہے کہ ناجائز کاموں میں اپنا پیسہ مت خرچ کر «ابتغاء رحمة‏» روزی کی تلاش میں «مثبورا‏» کے معنی ملعون کے ہیں۔ «لا تقف‏» مت کہہ «فجاسوا‏» قصد کیا۔ «يزجي الفلك» کے معنی چلاتا ہے۔ «يخرون للأذقان‏» کے معنی منہ کے بل گر پڑتے ہیں (سجدہ کرتے ہیں)۔
حدیث نمبر: 4711
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، أَخْبَرَنَا مَنْصُورٌ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" كُنَّا نَقُولُ لِلْحَيِّ إِذَا كَثُرُوا فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَمِرَ بَنُو فُلَانٍ". حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، وَقَالَ: أَمَرَ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، کہا ہم کو منصور نے خبر دی، انہیں ابووائل نے اور ان سے عبداللہ نے بیان کیا کہ جب کسی قبیلہ کے لوگ بڑھ جاتے تو زمانہ جاہلیت میں ہم ان کے متعلق کہا کرتے تھے کہ «أمر بنو فلان‏.‏» (یعنی فلاں کا خاندان بہت بڑھ گیا)۔ ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا اور اس روایت میں انہوں نے بھی لفظ «أمر‏.‏» کا ذکر کیا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4711  
4711. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب کسی قبیلے کے لوگ زیادہ ہو جاتے تو زمانہ جاہلیت میں ہم ان کے متعلق کہا کرتے تھے: أمر بنو فلان، فلاں کا خاندان بہت بڑھ گیا ہے۔ ایک دوسری روایت میں سفیان بن عیینہ نے بھی اس لفظ أمر کا ذکر کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4711]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ کا مطلب اس روایت کے لانے سے یہ ہے کہ قرآن شریف میں جو آتا ہے ﴿أمرنَا مُترَفیھا﴾ یہ بکسرئہ میم ہے۔
ابن عباس ؓ کی یہی قراءت ہے اور مشہور بہ فتح میم ہے۔
ابن عباس کی قراءت پر معنی یہ ہوگا جب ہم کسی بستی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔
تو وہاں بد کاروں کی تعداد بڑھا دیتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4711   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4711  
4711. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب کسی قبیلے کے لوگ زیادہ ہو جاتے تو زمانہ جاہلیت میں ہم ان کے متعلق کہا کرتے تھے: أمر بنو فلان، فلاں کا خاندان بہت بڑھ گیا ہے۔ ایک دوسری روایت میں سفیان بن عیینہ نے بھی اس لفظ أمر کا ذکر کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4711]
حدیث حاشیہ:

آیت کریمہ میں:
أمَرْنَا کے متعلق عام طور پر تین قراءتیں ہیں۔
۔
(اَمَرَ، يَاُمُر، از نَصَر)
اس کے معنی ہیں:
حکم دینا جمہور کی قراءت یہی ہے اس کے مطابق معنی یہ ہوں گے کہ ہم مال داروں کو کہا ماننے کا حکم دیتے ہیں لیکن وہ نافرمانی پر اتر آتے ہیں۔
۔
(اَمِرَ يَامَرُ از سَمِعَ)
حضرت ابن عباس ؓ سے یہی قرآءت منقول ہے۔
اس کے معنی تعداد میں زیادہ کرنا اور انھیں بڑھادینا ہیں۔
اس کی تائید مذکورہ حدیث سے بھی ہوتی ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت ابو سفیان ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق کہا تھا (لقد أَمِرَ أمرُ ابن أبي كبشة)
یعنی ابن ابی کبشہ کا معاملہ بہت بڑھ گیا ہے۔
(صحیح البخاري، بدہ الوحي، حدیث: 7)
اس قراءت کے مطابق معنی یہ ہوں گے کہ جب ہم کسی بستی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو وہاں بدکاروں کی تعداد بڑھا دیتے ہیں۔

اسے میم کی شد سے بھی پڑھا گیا ہے اس صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو وہاں عیش پرستوں کو قوم کا حاکم بنا دیتے ہیں بہرحال امام بخاری ؒ کا رجحان یہ ہے کہ اس مقام پر دوسری قراءت کے مطابق معنی کیے جائیں کہ وہاں خوش عیش امراء کی تعداد بڑھا دیتے ہیں۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4711