صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
9. بَابُ: {وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ} :
باب: آیت کی تفسیر ”یعنی (معراج کی رات میں) ہم نے جو جو مناظر دکھلائے تھے، ان کو ہم نے ان لوگوں کی آزمائش کا سبب بنا دیا“۔
حدیث نمبر: 4716
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلا فِتْنَةً لِلنَّاسِ سورة الإسراء آية 60، قَالَ:" هِيَ رُؤْيَا عَيْنٍ، أُرِيَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ، وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ سورة الإسراء آية 60، شَجَرَةُ الزَّقُّومِ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آیت «وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس‏» میں «رؤيا» سے آنکھ کا دیکھنا مراد ہے (بیداری میں نہ کہ خواب میں) یعنی وہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شب معراج میں دکھایا گیا اور «شجرة الملعونة‏» سے تھوہڑ کا درخت مراد ہے۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6613  
´آیت اور وہ خواب جو ہم نے تم کو دکھایا ہے، اسے ہم نے صرف لوگوں کے لیے آزمائش بنایا ہے`
«. . . عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:" وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلا فِتْنَةً لِلنَّاسِ سورة الإسراء آية 60، قَالَ: هِيَ رُؤْيَا عَيْنٍ أُرِيَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ"، قَالَ:" وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ، قَالَ: هِيَ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ . . .»
. . . ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت «وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس‏» اور وہ رؤیا جو ہم نے تمہیں دکھایا ہے اسے ہم نے صرف لوگوں کے لیے آزمائش بنایا ہے۔ کے متعلق کہا کہ اس سے مراد آنکھ کا دیکھنا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معراج کی رات دکھایا گیا تھا۔ جب آپ کو بیت المقدس تک رات کو لے جایا گیا تھا، کہا کہ قرآن مجید میں «الشجرة الملعونة» سے مراد «زقوم‏.‏» کا درخت ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْقَدَرِ: 6613]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6613 کا باب: «بَابُ: {وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ}

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب قرآن مجید کی آیت پر مبنی ہے کہ وہ خواب جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا گیا وہ آزمائش تھا لوگوں کے لیے، تحت الباب اسی آیت کو پیش فرمایا گیا مگر آیت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزے کا ذکر کیا گیا ہے اور «الشجرة الملعونة» کا بھی ذکر فرمایا۔ لہذا ترجمۃ الباب کی مناسبت اس حدیث سے کس طرح ہو سکتی ہے؟ کیونکہ بظاہر باب اور حدیث میں مناسبت کا پہلو کس انداز سے قائم ہوگا واضح نہیں ہوتا اور خواب کا ذکر باب میں کیا گیا اور تحت الباب زقوم کے درخت کا، لہذا اس موقع پر مناسبت کا پہلو اجاگر نہیں ہوتا۔ ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے ابن التین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وجه دخول هذا الحديث فى كتاب القدر الإشارة إلى أن الله قدر على المشركين التكذيب لرؤيا نبيه الصادق فكان ذالك زيادة فى طغيانهم حيث قالوا: كيف يسير إلى بيت المقدس فى ليلة واحدة ثم يرجع فيها؟ وكذالك جعل الشجرة الملعونة زيادة فى طغيانهم حيث قالوا: كيف يكون فى النار شجرة و النار تحرق الشجر؟ و فيه خلق الله الكفر و دواعي الكفر من الفتنة.» (1)
اس حدیث کو کتاب القدر میں نقل کرنے کی وجہ اس امر کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اللہ تعالی نے مشرکین کے لیے مقدر کر رکھا ہے کہ وہ اس کے نبی کی رویائے صادقہ کی تکذیب کریں، تو یہ ان کی طغیان اور سرکشی میں زیادتی ہے، جب کہا گیا کہ کس طرح ایک ہی رات میں بیت المقدس میں جا کر واپس آ گئے؟ اسی طرح سے «شجرة ملعونة» کو ان کی سرکشی میں زیادتی کا سبب بنایا، جب اعتراض لگایا گیا کہ جہنم (جو آگ کے انگاروں سے عبارت ہے) میں درخت کیسے باقی رہ سکتا ہے، آگ نے اسے جلایا نہیں؟ اس میں اللہ تعالی کی خلقت کا انکار ہے اور یہ دواعی الکفر ہے فتنہ سے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«وجه دخوله فى أبواب القدر من ذكر الفتنة، و أن الله تعالى هو الذى جعلها، وقد قال موسى عليه السلام: ﴿إِنْ هِيَ إِلَّا فِتْنَتُكَ تُضِلُّ بِهَا مَنْ تَشَاءُ وَتَهْدِي مَنْ تَشَاءُ﴾ [الأعراف: 155] (2)
یعنی اس حدیث کو ابواب القدر میں نقل کرنے کی وجہ فتنہ سے ہے کہ اللہ تعالی نے یقینا (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب کو) ان کے لیے فتنہ (آزمائش) بنایا، جیسا کہ اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کا فرمان نقل فرمایا کہ « ﴿إِنْ هِيَ إِلَّا فِتْنَتُكَ تُضِلُّ بِهَا مَنْ تَشَاءُ وَتَهْدِي مَنْ تَشَاءُ﴾ » [الأعراف: 155] ۔ علامہ مہلب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس حدیث کو کتاب القدر میں لانے کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی نے لوگوں پر مہر لگا دی، جو مشرکین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رؤیا کو جھٹلا رہے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو صادق ہیں آپ کی تکذیب کی وجہ سے انہیں فتنہ میں مبتلا کر دیا گیا اور ان کی سرکشی میں زیادتی بھی کر دی گئی، اسی طرح سے قرآن میں جو «شجرة الملعونة» ہے، وہ بھی لوگوں کے لیے فتنہ بنایا گیا ہے، ان کا یہ بھی اعتراض تھا کہ درخت کس طرح سے باقی رہے گا آگ میں جب کہ وہ یابس اور اخضر ہو، پس یہ (اعتراض) ان کے لیے فتنہ ہے اور ان کی گمراہی میں اضافے کا سبب بھی۔(2)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ترجمۃ الباب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خواب کا ذکر ہے جس کے ذریعے لوگوں کو آزمایا گیا، اور تحت الباب حدیث میں جس خواب کا ذکر ہے تو تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب کو مشرکین جھٹلائیں گے اور جب وہ جھٹلائیں گے تو لازما ان پر جہنم واجب کر دی جائے گی جس میں زقوم کا درخت ہے جو گنہگاروں کا کھانا ہے۔ لہذا اس تطبیق سے ترجمۃ الباب سے بھی مناسب قائم ہو گی اور کتاب القدر سے بھی۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 231   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3134  
´سورۃ بنی اسرائیل سے بعض آیات کی تفسیر۔`
‏‏‏‏ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما آیت کریمہ: «وما جعلنا الرؤيا التي أريناك إلا فتنة للناس» اور نہیں کیا ہم نے وہ مشاہدہ کہ جسے ہم نے تمہیں کروایا ہے (یعنی إسراء و معراج کے موقع پر جو کچھ دکھلایا ہے) مگر لوگوں کی آزمائش کے لیے (بنی اسرائیل: ۶۰)، کے بارے میں کہتے ہیں: اس سے مراد (کھلی) آنکھوں سے دیکھنا تھا، جس دن آپ کو بیت المقدس کی سیر کرائی گئی تھی ۱؎ انہوں نے یہ بھی کہا «والشجرة الملعونة في القرآن» میں شجرہ «ملعونہ» سے مراد تھوہڑ کا درخت ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3134]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اور نہیں کیا ہم نے وہ مشاہدہ کہ جسے ہم نے تمہیں کروایا ہے (یعنی إسراء ومعراج کے موقع پر جو کچھ دکھلایا ہے) مگر لوگوں کی آزمائش کے لیے (بنی اسرائیل: 60)
2؎:
یعنی خواب میں سیر نہیں،
بلکہ حقیقی وجسمانی معراج تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3134   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4716  
4716. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے درج ذیل آیت کے متعلق فرمایا: "اور وہ مناظر جو ہم نے آپ کو دکھائے تھے وہ لوگوں کے لیے صاف آزمائش ہی تھے" اس رویا سے مراد آنکھ کا دیکھنا ہے جو رسول اللہ ﷺ کو شب معراج میں دکھایا گیا۔" اور وہ درخت جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے" اس سے مراد تھوہر کا درخت ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4716]
حدیث حاشیہ:
اہل سنت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ معراج نبوی حالت بیداری میں ہوا۔
مکہ سے بیت المقدس تک معراج قرآن شریف سے ثابت ہے اور وہاں سے آسمانوں تک کی سیر صحیح حدیث سے ثابت ہے۔
اہلحدیث کا ہر دو پر ایمان ہے۔
﴿رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ﴾ (المائدة: 83)
یہ تھوہڑ کا درخت دوزخ میں اگے گا۔
مشرکوں کو اس پر تعجب آتا تھا کہ آگ میں درخت کیوں کر اگے گا۔
انہوں نے حق تعالیٰ کی قدرت پر غور نہیں کیا۔
سمندر ایک کیڑا ہے جو آگ میں اس طرح عیش کرتا ہے جیسے آدمی ہوا میں یا مچھلی پانی میں۔
شتر مرغ آگ کے انگارے، گرم لوہے کے ٹکڑے نگل جاتا ہے، اس کو مطلق تکلیف نہیں ہوتی۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4716   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4716  
4716. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے درج ذیل آیت کے متعلق فرمایا: "اور وہ مناظر جو ہم نے آپ کو دکھائے تھے وہ لوگوں کے لیے صاف آزمائش ہی تھے" اس رویا سے مراد آنکھ کا دیکھنا ہے جو رسول اللہ ﷺ کو شب معراج میں دکھایا گیا۔" اور وہ درخت جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے" اس سے مراد تھوہر کا درخت ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4716]
حدیث حاشیہ:

واقعہ معراج ایک خرق عادت معجزہ تھا۔
کفار نے اس معجزے کا اتنا مذاق اڑایا کہ کمزور ایمان والے لوگ بھی شک میں پڑ گئے۔
پھر وہ کافر جنھوں نے پہلے بیت المقدس دیکھا ہوا تھا وہ رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق سوالات پوچھنے لگے۔
اللہ تعالیٰ نے درمیان سے سب پردے ہٹادیے اورآپ ﷺ ان کے تمام سوالات کے جوابات دینے لگے۔
اب چاہیے تو یہ تھا کہ کسی حسی معجزہ کے طالب کفار ایمان لے آتے لیکن وہ ان کے لیے آزمائش اور باعث فتنہ بن گیا اور وہ پہلے سے بھی زیادہ سرکشی کرنے لگے۔

تھوہر کے درخت کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"جہنم کی تہ سے تھوہر کادرخت اُگے گا۔
یہی اہل جہنم کاکھاناہوگا۔
اس کے علاوہ انھیں کھانے کی کوئی اورچیز نہیں ملے گی۔
" (الصافات: 62/37)
اس پر بھی کفار نے بہت باتیں بنائیں کہ آگ میں یہ درخت کیسے اُگ سکتاہے،حالانکہ آگ کا کیڑا سَمَندر(Salamander)
آگ ہی سے پیدا ہوتا ہے اور اسی میں زندہ رہتا ہے۔

تھوہر کا درخت ملعون اس لیے ہے کہ اس میں غذائیت تو نام کی نہیں بلکہ اس کے کانٹے اتنے سخت ہوتے ہیں وہ اہل دوزخ کی اذیت اورتکلیف میں اضافہ ہی کریں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4716