صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
12. بَابُ: {وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا} يَزْهَقُ يَهْلِكُ:
باب: آیت کی تفسیر ”اور آپ کہہ دیں کہ حق (اب تو غالب) آ ہی گیا اور باطل مٹ ہی گیا، بیشک باطل تو مٹنے والا ہی تھا“ «يزهق» کے معنی ہلاک ہوا۔
حدیث نمبر: 4720
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ وَحَوْلَ الْبَيْتِ سِتُّونَ وَثَلَاثُ مِائَةِ نُصُبٍ، فَجَعَلَ يَطْعُنُهَا بِعُودٍ فِي يَدِهِ، وَيَقُولُ:" جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ".
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ ابن ابی نجیح نے، ان سے مجاہد نے، ان سے ابومعمر نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں (فتح کے بعد) داخل ہوئے تو کعبہ کے چاروں طرف تین سو ساٹھ بت تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ کی لکڑی سے ایک کو ٹکراتے جاتے اور پڑھتے جاتے «جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقا‏»، «جاء الحق وما يبدئ الباطل وما يعيد‏» حق آیا اور جھوٹ نابود ہوا بیشک جھوٹ نابود ہونے والا ہی تھا۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3138  
´سورۃ بنی اسرائیل سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جس سال مکہ فتح ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو خانہ کعبہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت نصب تھے، آپ اپنے ہاتھ میں لی ہوئی چھڑی سے انہیں کچوکے لگانے لگے (عبداللہ نے کبھی ایسا کہا) اور کبھی کہا کہ آپ اپنے ہاتھ میں ایک لکڑی لیے ہوئے تھے، اور انہیں ہاتھ لگاتے ہوئے کہتے جاتے تھے «جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقا» حق آ گیا باطل مٹ گیا باطل کو مٹنا اور ختم ہونا ہی تھا (بنی اسرائیل: ۸۱)، «جاء الحق وما يبدئ الباطل وما يعيد» حق غالب آ گیا ہے، اب باطل نہ ابھر سکے گا اور نہ ہی لو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3138]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
حق آ گیا باطل مٹ گیا باطل کو مٹنا اورختم ہونا ہی تھا۔
(بنی اسرائیل: 81)

2؎:
حق غالب آ گیا ہے،
اب باطل نہ ابھر سکے گا اورنہ ہی لوٹ کر آئے گا۔
 (سبا: 49)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3138   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4720  
4720. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو اس وقت بیت اللہ کے چاروں طرف تین سو ساٹھ بت نصب تھے۔ آپ ﷺ اپنے دست مبارک میں پکڑی ہوئی ایک چھڑی انہیں مارتے جاتے اور یہ آیات پڑھ رہے تھے۔ حق آ گیا اور باطل نابود ہو گیا۔ بےشک باطل تو ہے ہی نیست و نابود ہونے والا۔ حق آ گیا اور باطل نہ تو کسی چیز کو شروع کر سکتا ہے اور نہ کسی چیز کو لوٹا سکتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4720]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو اس وقت آپ نے یہ کام کیا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4287)
حق سے مراد قرآن اوردین حق، باطل سے مراد کفر وشرک ہے۔
مطلب یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے اللہ کا دین اور اس کا قرآن آگیا ہے، جس سے باطل ختم ہوگیا ہے، اب وہ سر اٹھانے کے قابل نہیں رہا۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے وقت جب آپ نے کعبہ میں تصویریں دیکھیں تو آپ اس میں داخل نہیں ہوئے یہاں تک کہ آپ کے حکم سے تمام تصویریں مٹا دی گئیں۔
آپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تصویریں دیکھیں جن کے ہاتھوں میں قسمت آزمائی کے تیر تھے۔
آپ نے فرمایا:
ان(مشرکوں)
کو اللہ تباہ و برباد کرے! اللہ کی قسم! انھوں (سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام)
نے کبھی تیروں سے فال نہیں لی تھی۔
(صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3352)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت اللہ میں داخل ہوئے تو دیکھا وہاں سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدہ مریم علیہ السلام کی تصاویر ہیں۔
آپ نے فرمایا:
وہ تو سن چکے ہیں کہ جس گھر میں تصویریں ہوں وہاں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔
یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تصویر ہے ان کو کیا ہوا؟ بھلا وہ ان تیروں سے قسمت آزمائی کرتے؟ (صحیح البخاري، أحادیث الأنبیاء، حدیث: 3351)

بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ان آیات کی تلاوت کرتے ہوئے بیت اللہ میں داخل ہوئے تو یہ آیات ایک واضح حقیقت بن کر قریش مکہ کے سامنے آچکی تھیں۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4720