صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
13. بَابُ: {وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور آپ سے یہ لوگ روح کی بابت پوچھتے ہیں“۔
حدیث نمبر: 4721
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" بَيْنَا أَنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرْثٍ وَهُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى عَسِيبٍ، إِذْ مَرَّ الْيَهُودُ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ؟ فَقَالَ: مَا رَأْيُكُمْ إِلَيْهِ؟ وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا يَسْتَقْبِلُكُمْ بِشَيْءٍ تَكْرَهُونَهُ، فَقَالُوا سَلُوهُ؟ فَسَأَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، فَأَمْسَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِمْ شَيْئًا، فَعَلِمْتُ أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ، فَقُمْتُ مَقَامِي، فَلَمَّا نَزَلَ الْوَحْيُ، قَالَ: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا سورة الإسراء آية 85".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا ہم سے میرے والد نے، کہا ہم سے اعمش نے، کہا کہ مجھ سے ابراہیم نخعی نے بیان کیا، ان سے علقمہ نے، ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک کھیت میں حاضر تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کھجور کے ایک تنے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے کہ کچھ یہودی اس طرف سے گزرے۔ کسی یہودی نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا کہ ان سے روح کے بارے میں پوچھو۔ ان میں سے کسی نے اس پر کہا ایسا کیوں کرتے ہو؟ دوسرا یہودی بولا۔ کہیں وہ کوئی ایسی بات نہ کہہ دیں، جو تم کو ناپسند ہو۔ رائے اس پر ٹھہری کہ روح کے بارے میں پوچھنا ہی چاہئے۔ چنانچہ انہوں نے آپ سے اس کے بارے میں سوال کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے اور ان کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ میں سمجھ گیا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتر رہی ہے۔ اس لیے میں وہیں کھڑا رہا۔ جب وحی ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی «ويسألونك عن الروح قل الروح من أمر ربي وما أوتيتم من العلم إلا قليلا‏» کہ اور یہ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ آپ کہہ دیں کہ روح میرے پروردگار کے حکم ہی سے ہے اور تمہیں علم تو تھوڑا ہی دیا گیا ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 125  
´اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تشریح میں کہ تمہیں تھوڑا علم دیا گیا ہے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَرِبِ الْمَدِينَةِ وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى عَسِيبٍ مَعَهُ، فَمَرَّ بِنَفَرٍ مِنْ الْيَهُودِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا تَسْأَلُوهُ، لَا يَجِيءُ فِيهِ بِشَيْءٍ تَكْرَهُونَهُ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَنَسْأَلَنَّهُ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَقَالَ: يَا أَبَا الْقَاسِمِ، مَا الرُّوحُ؟ فَسَكَتَ، فَقُلْتُ: إِنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ، فَقُمْتُ، فَلَمَّا انْجَلَى عَنْهُ، قَالَ: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا . . .»
. . . عبداللہ بن مسعود سے روایت کیا، وہ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے کھنڈرات میں چل رہا تھا اور آپ کھجور کی چھڑی پر سہارا دے کر چل رہے تھے، تو کچھ یہودیوں کا (ادھر سے) گزر ہوا، ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ آپ سے روح کے بارے میں کچھ پوچھو، ان میں سے کسی نے کہا مت پوچھو، ایسا نہ ہو کہ وہ کوئی ایسی بات کہہ دیں جو تمہیں ناگوار ہو (مگر) ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم ضرور پوچھیں گے، پھر ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا، اے ابوالقاسم! روح کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی، میں نے (دل میں) کہا کہ آپ پر وحی آ رہی ہے۔ اس لیے میں کھڑا ہو گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (وہ کیفیت) دور ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (قرآن کی یہ آیت جو اس وقت نازل ہوئی تھی) تلاوت فرمائی (اے نبی!) تم سے یہ لوگ روح کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ کہہ دو کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔ اور تمہیں علم کا بہت تھوڑا حصہ دیا گیا ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً: 125]

تشریح:
چونکہ توارۃ میں بھی روح کے متعلق یہ ہی بیان کیا گیا کہ وہ خدا کی طرف سے ایک چیز ہے، اس لیے یہودی معلوم کرنا چاہتے تھے کہ ان کی تعلیم بھی توراۃ کے مطابق ہے یا نہیں؟ یا روح کے سلسلہ میں یہ بھی ملاحدہ وفلاسفہ کی طرح دور از کار باتیں کہتے ہیں۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال آپ سے مکہ شریف میں بھی کیا گیا تھا، پھر مدینہ کے یہودی نے بھی اسے دہرایا۔ اہل سنت کے نزدیک روح جسم لطیف ہے جو بدن میں اسی طرح سرایت کئے ہوئے ہے، جس طرح گلاب کی خوشبو اس کے پھول میں سرایت کئے ہوتی ہے۔ روح کے بارے میں ستر اقوال ہیں۔

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے کتاب الروح میں ان پر خوب روشنی ڈالی ہے۔ واقعہ یہی ہے کہ روح خالص ایک لطیف شئے ہے، اس لیے ہم اپنی موجودہ زندگی میں جو کثافت سے بھرپور ہے کسی طرح روح کی حقیقت سے واقف نہیں ہو سکتے، اکابر اہل سنت کی یہی رائے ہے کہ ادب کا تقاضا یہی ہے کہ روح کے بارے میں سکوت اختیار کیا جائے، بعض علماء کی رائے ہے کہ «من امر ربي» سے مراد روح کا عالم امر سے ہونا ہے جو عالم ملکوت ہے، جمہور کا اتفاق ہے کہ روح حادث ہے جس طرح دوسرے تمام اجزا حادث ہیں۔ حضرت امام قدس سرہ کا منشائے باب یہ ہے کہ کوئی شخص کتنا ہی بڑا عالم فاضل محدث مفسر بن جائے مگر پھر بھی انسانی معلومات کا سلسلہ بہت محدود ہے اور کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ وہ جملہ علوم پر حاوی ہو چکا ہے۔ «الا من شاءالله»
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 125   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4721  
4721. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں ایک دفعہ نبی ﷺ کے ہمراہ ایک کھیت میں جا رہا تھا جبکہ آپ کھجور کی ایک چھڑی پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ اتنے میں چند یہودی سامنے سے گزرے اور آپس میں کہنے لگے: اس سے روح کے متعلق سوال کرو۔ کسی نے کہا: کیوں، آخر ایسی کیا ضرورت ہے؟ اور کسی نے کہا: ممکن ہے وہ تمہیں ایسی بات کہہ دے جو تمہیں ناگوار گزرے۔ آخر یہی طے ہوا کہ پوچھو تو سہی، چنانچہ انہوں نے آپ سے پوچھا: روح کیا چیز ہے؟ نبی ﷺ خاموش رہے اور انہیں کوئی جواب نہ دیا۔ میں سمجھ گیا کہ آپ پر وحی آنے لگی ہے۔ میں اپنی جگہ پر کھڑا رہا۔ جب وحی ختم ہوئی تو آپ نے یہ آیت پڑھی: اور وہ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ آپ ان سے کہہ دیں کہ روح میرے رب کا امر ہے اور تمہیں تو بس تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4721]
حدیث حاشیہ:
روح کو امر رب یعنی پروردگار کا حکم فرمایا اوراس کی حقیقت بیان نہیں کی۔
کیونکہ اگلے پیغمبروں نے بھی اس کی حقیقت بیان نہیں کی اور یہودیوں نے باہم یہی کہا کہ اگر روح کی حقیقت بیان نہ کریں تو یہ بے شک پیغمبر ہیں اگر بیان کریں تو ہم سمجھ لیں گے کہ حکیم ہیں پیغمبر نہیں ہیں۔
ابن کثیر نے کہا روح ایک مادہ ہے لطیف ہوا کی طرح اور بدن کے ہر جزو میں اس طرح حلول کئے ہوئے ہے جیسے پانی ہری بھری شاخوں میں۔
یہ روح حیوانی کی حقیقت ہے اور روح انسانی یعنی نفس ناطقہ وہ بدن سے متعلق ہے حکم الٰہی سے جب موت آتی ہے تو یہ تعلق ٹوٹ جاتا ہے۔
تفصیل کے لئے حضرت امام ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب الروح کا مطالعہ کیا جائے۔
سند میں مذکور علقمہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ ہیں۔
انس بن مالک اوراپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں۔
ان سے مالک بن انس اور سلیمان بن بلال نے روایت کی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4721   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4721  
4721. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں ایک دفعہ نبی ﷺ کے ہمراہ ایک کھیت میں جا رہا تھا جبکہ آپ کھجور کی ایک چھڑی پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ اتنے میں چند یہودی سامنے سے گزرے اور آپس میں کہنے لگے: اس سے روح کے متعلق سوال کرو۔ کسی نے کہا: کیوں، آخر ایسی کیا ضرورت ہے؟ اور کسی نے کہا: ممکن ہے وہ تمہیں ایسی بات کہہ دے جو تمہیں ناگوار گزرے۔ آخر یہی طے ہوا کہ پوچھو تو سہی، چنانچہ انہوں نے آپ سے پوچھا: روح کیا چیز ہے؟ نبی ﷺ خاموش رہے اور انہیں کوئی جواب نہ دیا۔ میں سمجھ گیا کہ آپ پر وحی آنے لگی ہے۔ میں اپنی جگہ پر کھڑا رہا۔ جب وحی ختم ہوئی تو آپ نے یہ آیت پڑھی: اور وہ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ آپ ان سے کہہ دیں کہ روح میرے رب کا امر ہے اور تمہیں تو بس تھوڑا سا علم دیا گیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4721]
حدیث حاشیہ:

کچھ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال قریش مکہ نے یہود مدینہ کے کہنے پر کیا تھا۔
(جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3140)
مگر صحیح بخاری کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال یہود مدینہ ہی نے کیا تھا جیساکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں (خَرِبِ المَدينَةِ)
مدینہ کے کھنڈرات کی تصریح ہے۔
(صحیح البخاری، العلم، حدیث: 125)
ممكن ہے کہ ان آیات کا نزول مکرر ہو۔
ایک روایت میں صراحت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو یہودی کہنے لگے:
ہمیں بہت علم دیا گیا ہے۔
ہمیں تورات دی گئی ہے اور جسے تورات مل گئی تو اسے بہت بھلائی مل گئی، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
آپ ان سے کہہ دیں:
اگرمیرے پروردگار کی باتیں لکھنے کےلیے سمندر سیاہ بن جائے تو سمندر ختم ہوجائے گا مگرمیرے پروردگار کی باتیں ختم نہیں ہوں گی، خواہ اتنی ہی اور بھی سیاہی لائی جائے۔
(الکھف: 109/18 و جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3140)

جس روح کے متعلق یہود نے سوال کیا تھا اس سے کون سی روح مراد ہے۔
اس سلسلے میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بہت سے اقوال نقل کیے ہیں:
۔
روح انسان۔
۔
روح حیوان
۔
جبریل علیہ السلام۔
۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام
۔
قرآن۔
۔
فرشتہ۔
۔
وحی الٰہی۔
۔
خاص مخلوق، پھر انھوں نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ اس سے مراد روح انسان ہے۔
(فتح الباري: 511/8)

حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
روح انسانی ایک ایسی چیز ہے جس کے متعلق سب جانتے اور اسے تسلیم کرتے ہیں۔
اس کا تذکرہ قرآن نے جہاں بھی کیا ہے وہاں اس کے لیے لفظ "نفس" استعمال کیاہے، لفظ "روح" استعمال نہیں کیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس روح کے متعلق یہود مدینہ نے سوال کیا تھا اس سے مراد وہ روح ہے جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں ہے:
﴿يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَـئِكَةُ صَفَّاً﴾ یعنی حضرت جبریل علیہ السلام روح انسانی مراد نہیں۔
(النباء: 38، وکتاب الروح، ص: 243)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی تحقیق کومرجوح قراردیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہود کا سوال روح انسانی کے متعلق تھا۔
(فتح الباري: 513/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4721