صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
14. بَابُ: {وَلاَ تَجْهَرْ بِصَلاَتِكَ وَلاَ تُخَافِتْ بِهَا} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور آپ نماز میں نہ تو بہت پکار کر پڑھیں اور نہ (بالکل) چپکے ہی چپکے پڑھیں“۔
حدیث نمبر: 4722
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110، قَالَ:" نَزَلَتْ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُخْتَفٍ بِمَكَّةَ، كَانَ إِذَا صَلَّى بِأَصْحَابِهِ رَفَعَ صَوْتَهُ بِالْقُرْآنِ، فَإِذَا سَمِعَهُ الْمُشْرِكُونَ سَبُّوا الْقُرْآنَ، وَمَنْ أَنْزَلَهُ، وَمَنْ جَاءَ بِهِ، فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ سورة الإسراء آية 110 أَيْ بِقِرَاءَتِكَ، فَيَسْمَعَ الْمُشْرِكُونَ، فَيَسُبُّوا الْقُرْآنَ، وَلا تُخَافِتْ بِهَا سورة الإسراء آية 110 عَنْ أَصْحَابِكَ، فَلَا تُسْمِعُهُمْ، وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا".
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم بن بشیر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوبشر نے بیان کیا، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها‏» اور آپ نماز میں نہ تو بہت پکار کر پڑھئے اور نہ (بالکل) چپکے ہی چپکے کے متعلق فرمایا کہ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں (کافروں کے ڈر سے) چھپے رہتے تو اس زمانہ میں جب آپ اپنے صحابہ کے ساتھ نماز پڑھتے تو قرآن مجید کی تلاوت بلند آواز سے کرتے، مشرکین سنتے تو قرآن کو بھی گالی دیتے اور اس کے نازل کرنے والے اور اس کے لانے والے کو بھی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے کہا کہ آپ نماز نہ تو بہت پکار کر پڑھیں (یعنی قرآت خوب جہر کے ساتھ نہ کریں) کہ مشرکین سن کر گالیاں دیں اور نہ بالکل چپکے ہی چپکے کہ آپ کے صحابہ بھی نہ سن سکیں، بلکہ درمیانی آواز میں پڑھا کریں۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1012  
´آیت کریمہ: اے محمد! نہ اپنی نماز بہت بلند آواز سے پڑھیں اور نہ بہت پست آواز سے کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم آیت کریمہ: «ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها‏» کے سلسلے میں کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں چھپے رہتے تھے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) کو نماز پڑھاتے تو اپنی آواز بلند کرتے، (ابن منیع کی روایت میں ہے: قرآن زور سے پڑھتے) جب مشرکین آپ کی آواز سنتے تو قرآن کو اور جس نے اسے نازل کیا ہے اسے، اور جو لے کر آیا ہے اسے سب کو برا بھلا کہتے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے محمد! اپنی نماز یعنی اپنی قرأت کو بلند نہ کریں کہ مشرکین سنیں تو قرآن کو برا بھلا کہیں، اور نہ اسے اتنی پست آواز میں پڑھیں کہ آپ کے ساتھی سن ہی نہ سکیں، بلکہ ان دونوں کے بیچ کا راستہ اختیار کریں۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 1012]
1012۔ اردو حاشیہ:
➊ مشرکین سے قطع نظر نماز کے اندر امام درمیانی آواز اختیار کرے۔ اسی طرح نفل نماز پڑھنے والا اتنی آواز رکھے جس سے دوسرو ں کی نماز یا آرام میں خلل بھی نہ پڑے اور اس کی آواز بھی سنائی دے۔ ویسے بھی منہ میں پڑھنے سے وہ تاثر پیدا نہیں ہوتا جو آواز کے ساتھ پڑھنے سے ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔
➋ ابتدائے اسلام میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو دعوت دیتے تو مشرکین آپ کو تکلیفیں دیتے تھے۔ آپ اور آپ کے صحابہ چھپ کر نماز پڑھتے اور مسلسل دعوت کا کام کرتے رہے، اسی طرح ہر داعی کو بچاؤ کے اسباب اختیار کرنے چاہئیں اور مخالفین کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں کو برداشت کرے۔ آخر کار کامیابی دین اسلام ہی کی ہے، نیز اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دعوت دینے والا ہر اس کام اور بات سے دور رہے جس سے لوگوں کواللہ، اس کے رسول اور دین اسلام پر طعن و تشنیع کرنے کا موقع ملے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1012   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3145  
´سورۃ بنی اسرائیل سے بعض آیات کی تفسیر۔`
‏‏‏‏ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما آیت کریمہ: «ولا تجهر بصلاتك» اپنی صلاۃ بلند آواز سے نہ پڑھو (بنی اسرائیل: ۱۱۰)، کے بارے میں کہتے ہیں: یہ مکہ میں نازل ہوئی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بلند آواز کے ساتھ قرآن پڑھتے تھے تو مشرکین اسے اور جس نے قرآن نازل کیا ہے اور جو قرآن لے کر آیا ہے سب کو گالیاں دیتے تھے، تو اللہ نے «ولا تجهر بصلاتك» نازل کر کے نماز میں قرآن بلند آواز سے پڑھنے سے منع فرما دیا تاکہ وہ قرآن، اللہ تعالیٰ اور جبرائیل علیہ السلام کو گالیاں نہ دیں اور آگے «ولا تخافت بها» نازل فرمایا، یعنی اتنے دھیرے بھی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3145]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اپنی نماز بلندآوازسے نہ پڑھو (بنی اسرائیل: 110)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3145