صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
1. بَابُ: {وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلاً} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور انسان سب چیز سے بڑھ کر جھگڑالو ہے“۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: تَقْرِضُهُمْ: تَتْرُكُهُمْ، وَكَانَ لَهُ ثُمُرٌ: ذَهَبٌ وَفِضَّةٌ، وَقَالَ غَيْرُهُ: جَمَاعَةُ الثَّمَرِ، بَاخِعٌ، مُهْلِكٌ، أَسَفًا: نَدَمًا الْكَهْفُ الْفَتْحُ فِي الْجَبَلِ، وَالرَّقِيمُ الْكِتَابُ مَرْقُومٌ مَكْتُوبٌ مِنَ الرَّقْمِ، رَبَطْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ: أَلْهَمْنَاهُمْ صَبْرًا، لَوْلَا أَنْ رَبَطْنَا عَلَى قَلْبِهَا شَطَطًا: إِفْرَاطًا الْوَصِيدُ الْفِنَاءُ جَمْعُهُ، وَصَائِدُ وَوُصُدٌ، وَيُقَالُ الْوَصِيدُ الْبَابُ، مُؤْصَدَةٌ: مُطْبَقَةٌ آصَدَ الْبَابَ، وَأَوْصَدَ، بَعَثْنَاهُمْ: أَحْيَيْنَاهُمْ، أَزْكَى: أَكْثَرُ، وَيُقَالُ: أَحَلُّ، وَيُقَالُ: أَكْثَرُ رَيْعًا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أُكْلَهَا وَلَمْ تَظْلِمْ: لَمْ تَنْقُصْ، وَقَالَ سَعِيدٌ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: الرَّقِيمُ اللَّوْحُ مِنْ رَصَاصٍ كَتَبَ عَامِلُهُمْ أَسْمَاءَهُمْ، ثُمَّ طَرَحَهُ فِي خِزَانَتِهِ، فَضَرَبَ اللَّهُ عَلَى آذَانِهِمْ فَنَامُوا، وَقَالَ غَيْرُهُ: وَأَلَتْ تَئِلُ تَنْجُو، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: مَوْئِلًا: مَحْرِزًا، لَا يَسْتَطِيعُونَ سَمْعًا: لَا يَعْقِلُونَ.
‏‏‏‏ مجاہد نے کہا «تقرضهم‏» کا معنی ان کو چھوڑ دیتا تھا، کترا جاتا تھا۔ «وكان له ثمر‏» میں «ثمر‏» سے مراد سونا روپیہ ہے۔ دوسروں نے کہا «ثمر‏» یعنی پھل کی جمع ہے۔ «باخع‏» کا معنی ہلاک کرنے والا۔ «أسفا‏» ندامت اور رنج سے۔ «كهف» پہاڑ کا کھوہ یا غار۔ «الرقيم» کے معنی لکھا ہوا بمعنی «مرقوم» یہ اسم مفعول کا صیغہ ہے «رقم» سے۔ «ربطنا على قلوبهم‏» ہم نے ان کے دلوں میں صبر ڈالا جیسے سورۃ قصص میں ہے۔ «لولا أن ربطنا على قلبها‏» (وہاں بھی صبر کے معنی ہیں)۔ «شططا‏» حد سے بڑھ جانا۔ «مرفقا» جس چیز پر تکیہ لگائے۔ «تزاور» زور سے نکلا ہے یعنی جھک جاتا تھا اسی سے «ازور» ہے بہت جھکنے والا۔ «فجوة» کشادہ جگہ اس کی جمع «فجوات» اور «فجاء» آتی ہے جیسے «زكوة» کی جمع «زكاء» ہے۔ اور «وصيدا» آنگن، صحن اس کی جمع «وصائد» اور «وصد» ہے۔ بعضوں نے کہا «وصيد» کے معنی دروازہ۔ «مؤصدة‏» کے معنی بند کی ہوئی عرب لوگ کہتے ہیں «آصد الباب» یعنی اس نے دروازہ بند کر دیا۔ «بعثناهم‏» ہم نے ان کو زندہ کیا کھڑا کر دیا۔ «أزكى‏ طعاما» اور «أوصد الباب» یعنی جو بستی کی اکثر خوراک ہے یا جو کھانا خوب حلال کا ہو، خوب پک کر بڑھ گیا ہو۔ «أكلها» اس کا میوہ، یہ ابن عباس نے کہا ہے۔ «ولم تظلم‏» میوہ کم نہیں ہوا۔ اور سعید بن جبیر نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا۔ «رقيم» وہ ایک تختی ہے سیسے کی اس پر اس وقت کے حاکم نے اصحاب کہف کے نام لکھ کر اپنے خزانے میں ڈال دی تھی۔ «فضرب الله على آذانهم» اللہ نے ان کے کان بند کر دیئے۔ (ان پر پردہ ڈال دیا) وہ سو گئے۔ ابن عباس کے سوا اور لوگوں نے کہا۔ «موئلا‏» وال «يئل» سے نکلا ہے۔ یعنی نجات پائے اور مجاہد نے کہا «موئل» محفوظ مقام۔ «لا يستطيعون سمعا‏» کے معنی وہ عقل نہیں رکھتے۔
حدیث نمبر: 4724
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ أَخْبَرَهُ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ، قَالَ:" أَلَا تُصَلِّيَانِ؟". رَجْمًا بِالْغَيْبِ: لَمْ يَسْتَبِنْ، فُرُطًا: يُقَالُ نَدَمًا، سُرَادِقُهَا: مِثْلُ السُّرَادِقِ وَالْحُجْرَةِ الَّتِي تُطِيفُ بِالْفَسَاطِيطِ يُحَاوِرُهُ مِنَ الْمُحَاوَرَةِ، لَكِنَّا هُوَ اللَّهُ رَبِّي: أَيْ لَكِنْ أَنَا هُوَ اللَّهُ رَبِّي، ثُمَّ حَذَفَ الْأَلِفَ وَأَدْغَمَ إِحْدَى النُّونَيْنِ فِي الْأُخْرَى، وَفَجَّرْنَا خِلَالَهُمَا نَهَرًا، يَقُولُ: بَيْنَهُمَا، زَلَقًا: لَا يَثْبُتُ فِيهِ قَدَمٌ، هُنَالِكَ الْوِلَايَةُ: مَصْدَرُ الْوَلِيِّ، عُقُبًا: عَاقِبَةً، وَعُقْبَى وَعُقْبَةً وَاحِدٌ وَهِيَ الْآخِرَةُ قِبَلًا، وَقُبُلًا وَقَبَلًا اسْتِئْنَافًا، لِيُدْحِضُوا: لِيُزِيلُوا الدَّحْضُ الزَّلَقُ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے، کہا مجھے علی بن حسین نے خبر دی، انہیں حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے خبر دی اور انہیں علی رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت ان کے اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر آئے اور فرمایا۔ تم لوگ تہجد کی نماز نہیں پڑھتے (آخر حدیث تک)۔ «رجما بالغيب‏» یعنی سنی سنائی اور ان کو خود کچھ علم نہیں۔ «فرطا‏» ندامت، شرمندگی۔ «سرادقها‏» یعنی قناتوں کی طرح سب طرف سے ان کو آگ گھیر لے گی جیسے کوٹھری کو سب طرف سے خیمے گھیر لیتے ہیں۔ «يحاوره‏»، «محاورة» سے نکلا ہے یعنی گفتگو کرنا، تکرار کرنا۔ «لكنا هو الله ربي‏» اصل میں «لكن أنا هو الله ربي» تھا «أنا» کا ہمزہ حذف کر کے نون کو نون میں ادغام کر دیا «لكنا» ہو گیا۔ «خلالهما نهرا» یعنی «بينهما» ان کے بیچ میں۔ «زلقا» چکنا، صاف جس پر پاؤں پھسلے (جمے نہیں)۔ «هنالك الولاية‏»، «ولايت‏»، «ولي» کا مصدر ہے۔ «عقبا‏»، «عاقبت» اسی طرح «عقبى» اور «عقبة» سب کا ایک ہی معنی ہے یعنی آخرت۔ «قبلا» اور «قبلا» اور «قبلا» (تینوں طرح پڑھا ہے) یعنی سامنے آنا۔ «ليدحضوا‏»، «دحض» سے نکلا ہے یعنی پھسلانا (مطلب یہ ہے کہ حق بات کو ناحق کریں)۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4724  
4724. حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کے وقت ان کے اور حضرت فاطمہ‬ ؓ ک‬ے گھر تشریف لائے اور فرمایا: تم لوگ نماز (تہجد) کیوں نہیں پڑھتے؟ رَجْمًۢا بِٱلْغَيْبِ کے معنی ہیں: خود انہیں کچھ معلوم نہیں، یعنی بغیر علم کے رائے زنی کرنا۔ فُرُطًا کے معنی ہیں: ندامت اور شرمندگی۔ سُرَادِقُهَا کا مطلب ہے کہ قناتوں کی طرح ہر طرف سے انہیں آگ گھیر لے گی جس طرح کوٹھڑی اور حجرے کو ہر طرف سے خیمے گھیر لیتے ہیں۔ يُحَاوِرُهُۥٓ، محاورة سے نکلا ہے، یعنی گفتگو کرنا۔ لَّـٰكِنَّا۠ هُوَ ٱللَّـهُ رَبِّى دراصل یہ تھا: لكن أنا هو الله ربي، پھر "أنا" کا الف حذف کر کے نون کو نون میں ادغام کر دیا گیا، لہذا یہ لَّـٰكِنَّا۠ ہو گیا۔ وَفَجَّرْنَا خِلَـٰلَهُمَا نَهَرًا کے معنی ہیں: ہم نے ان دونوں (باغوں) کے درمیان ایک نہر جاری کر دی۔ زَلَقًا کے معنی ہیں: ایسا چکنا چپڑا (میدان) جس میں پاؤں پھسل جائیں، جم نہ سکیں۔ هُنَالِكَ ٱلْوَلَـٰيَةُ میں الولاية ولي کا مصدر ہے۔ عُقْبًا کے معنی ہیں: عاقبت، یعنی انجام۔ عاقبة، عقبى اور عقبة سب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4724]
حدیث حاشیہ:
مذکورہ حدیث باب التہجد میں گزر چکی ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اتنا ٹکڑا بیان کر کے پوری حدیث کی طرف اشارہ کر دیا اور اس کا تتمہ یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ! ہماری جانیں اللہ کے اختیار میں ہیں وہ جب ہم کو جگانا چاہے گا جگا دے گا یہ سن کر لوٹ گئے کچھ نہیں فرمایا بلکہ ران پر ہاتھ مار کر یہ آیت پڑھتے جاتے تھے۔
﴿وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا﴾ (الکهف: 54)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4724   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4724  
4724. حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کے وقت ان کے اور حضرت فاطمہ‬ ؓ ک‬ے گھر تشریف لائے اور فرمایا: تم لوگ نماز (تہجد) کیوں نہیں پڑھتے؟ رَجْمًۢا بِٱلْغَيْبِ کے معنی ہیں: خود انہیں کچھ معلوم نہیں، یعنی بغیر علم کے رائے زنی کرنا۔ فُرُطًا کے معنی ہیں: ندامت اور شرمندگی۔ سُرَادِقُهَا کا مطلب ہے کہ قناتوں کی طرح ہر طرف سے انہیں آگ گھیر لے گی جس طرح کوٹھڑی اور حجرے کو ہر طرف سے خیمے گھیر لیتے ہیں۔ يُحَاوِرُهُۥٓ، محاورة سے نکلا ہے، یعنی گفتگو کرنا۔ لَّـٰكِنَّا۠ هُوَ ٱللَّـهُ رَبِّى دراصل یہ تھا: لكن أنا هو الله ربي، پھر "أنا" کا الف حذف کر کے نون کو نون میں ادغام کر دیا گیا، لہذا یہ لَّـٰكِنَّا۠ ہو گیا۔ وَفَجَّرْنَا خِلَـٰلَهُمَا نَهَرًا کے معنی ہیں: ہم نے ان دونوں (باغوں) کے درمیان ایک نہر جاری کر دی۔ زَلَقًا کے معنی ہیں: ایسا چکنا چپڑا (میدان) جس میں پاؤں پھسل جائیں، جم نہ سکیں۔ هُنَالِكَ ٱلْوَلَـٰيَةُ میں الولاية ولي کا مصدر ہے۔ عُقْبًا کے معنی ہیں: عاقبت، یعنی انجام۔ عاقبة، عقبى اور عقبة سب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4724]
حدیث حاشیہ:

مذکورہ حدیث کتاب التہجد (1127)
میں گزر چکی ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ الفاظ بیان کر کے پوری حدیث کی طرف اشارہ کردیا ہے۔
اس حدیث کا تتمہ یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہماری جانیں اللہ کے اختیارمیں ہیں وہ جب ہمیں بیدار کرنا چاہے گا، کردے گا یہ سن کرآپ لوٹ گئے اور کچھ نہ کہا بلکہ اپنی ران پر ہاتھ مار کر یہ آیت پڑھتے جاتے تھے:
انسان سب سے زیادہ جھگڑالوہے۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شرعی حکم کو تقدیر سے رد کرنے کی کوشش کی، حالانکہ تقدیرتو صرف پریشانی دور کرنے کے لیے ہوتی ہے۔
اگراحکام شرعیہ میں بھی تقدیر کو استعمال کیا جائے توانبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4724