صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
20. سورة طه:
باب: سورۃ طہٰ کی تفسیر۔
قَالَ عِكْرِمَةُ، وَالضَّحَّاكُ بِالنَّبَطِيَّةِ، طَهْ: يَا رَجُلُ يُقَالُ كُلُّ مَا لَمْ يَنْطِقْ بِحَرْفٍ أَوْ فِيهِ تَمْتَمَةٌ أَوْ فَأْفَأَةٌ فَهِيَ عُقْدَةٌ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: أَلْقَى صَنَعَ، أَزْرِي: ظَهْرِي، فَيَسْحَتَكُمْ: يُهْلِكَكُمْ، الْمُثْلَى: تَأْنِيثُ الْأَمْثَلِ، يَقُولُ بِدِينِكُمْ يُقَالُ خُذْ الْمُثْلَى خُذْ الْأَمْثَلَ، ثُمَّ ائْتُوا صَفًّا، يُقَالُ: هَلْ أَتَيْتَ الصَّفَّ الْيَوْمَ يَعْنِي الْمُصَلَّى الَّذِي يُصَلَّى فِيهِ، فَأَوْجَسَ: فِي نَفْسِهِ خَوْفًا، فَذَهَبَتِ الْوَاوُ مِنْ خِيفَةً لِكَسْرَةِ الْخَاءِ، فِي جُذُوعِ: أَيْ عَلَى جُذُوعِ النَّخْلِ، خَطْبُكَ: بَالُكَ، مِسَاسَ: مَصْدَرُ مَاسَّهُ مِسَاسًا، لَنَنْسِفَنَّهُ: لَنَذْرِيَنَّهُ، قَاعًا: يَعْلُوهُ الْمَاءُ وَالصَّفْصَفُ الْمُسْتَوِي مِنَ الْأَرْضِ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: أَوْزَارًا أَثْقَالًا، مِنْ زِينَةِ الْقَوْمِ: وَهِيَ الْحُلِيُّ الَّتِي اسْتَعَارُوا مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ وَهِيَ الْأَثْقَالُ، فَقَذَفْتُهَا، فَأَلْقَيْتُهَا، أَلْقَى: صَنَعَ، فَنَسِيَ: مُوسَى هُمْ يَقُولُونَهُ أَخْطَأَ الرَّبَّ، لَا يَرْجِعُ إِلَيْهِمْ قَوْلًا: الْعِجْلُ، هَمْسًا: حِسُّ الْأَقْدَامِ، حَشَرْتَنِي أَعْمَى: عَنْ حُجَّتِي، وَقَدْ كُنْتُ بَصِيرًا: فِي الدُّنْيَا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: بِقَبَسٍ ضَلُّوا الطَّرِيقَ وَكَانُوا شَاتِينَ، فَقَالَ: إِنْ لَمْ أَجِدْ عَلَيْهَا مَنْ يَهْدِي الطَّرِيقَ آتِكُمْ بِنَارٍ تُوقِدُونَ، وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: أَمْثَلُهُمْ: أَعْدَلُهُمْ طَرِيقَةً، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هَضْمًا: لَا يُظْلَمُ، فَيُهْضَمُ مِنْ حَسَنَاتِهِ، عِوَجًا: وَادِيًا، وَلَا، أَمْتًا: رَابِيَةً، سِيرَتَهَا: حَالَتَهَا الْأُولَى، النُّهَى: التُّقَى، ضَنْكًا: الشَّقَاءُ، هَوَى: شَقِيَ بِالْوَادِي، الْمُقَدَّسِ: الْمُبَارَكِ، طُوًى: اسْمُ الْوَادِي يَفْرُطُ عُقُوبَةً، بِمِلْكِنَا: بِأَمْرِنَا، مَكَانًا سِوًى: مَنْصَفٌ بَيْنَهُمْ، يَبَسًا: يَابِسًا، عَلَى قَدَرٍ: مَوْعِدٍ، لَا تَنِيَا: تَضْعُفَا.
‏‏‏‏ سعید بن جبیر اور ضحاک بن مزاحم نے کہا حبشی زبان میں لفظ «طه‏» کے معنی اے مرد کے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جس کی زبان سے کوئی حرف نہ نکل سکے یا رک رک کر نکلے تو اس کی زبان میں «عقدة‏.‏» گرہ ہے۔ (موسیٰ علیہ السلام کی دعا «واحلل عقدة من لساني» میں یہی اشارہ ہے) «أزري‏» کے معنی میری پیٹھ۔ «فيسحتكم‏» کے معنی تم کو ہلاک کر دے۔ لفظ «المثلى‏»، «الأمثل» کا مؤنث ہے یعنی تمہارا دین۔ عرب لوگ کہتے ہیں «مثلى‏» اچھی بات کرے۔ «خذ الأمثل‏.‏» یعنی بہتر بات لے۔ «ثم ائتوا صفا‏» عرب لوگ کہتے ہیں کیا آج تو صف میں گیا تھا؟ یعنی نماز کے مقام میں جہاں جمع ہو کر نماز پڑھتے ہیں (جیسے عیدگاہ وغیرہ)۔ «فأوجس‏» دل میں سہم گیا۔ «خيفة» اصل میں «خوفة» تھا واؤ بہ سبب کسرہ «ما قبل» یاء ہو گیا۔ «في جذوع‏ النخل» کھجور کی شاخوں پر «في علي» کے معنی میں ہے۔ «خطبك‏» یعنی تیرا کیا حال ہے، تو نے یہ کام کیوں کیا۔ «مساس‏» مصدر ہے۔ «ماسه»، «مساسا‏.‏» سے یعنی چھونا۔ «لننسفنه‏» بکھیر ڈالیں گے یعنی جلا کر راکھ کو دریا میں بہا دیں گے۔ «قاعا‏» وہ زمین جس کے اوپر پانی چڑھ آئے (یعنی صاف ہموار میدان)۔ «صفصفا» ہموار زمین۔ اور مجاہد نے کہا «من زينة القوم‏.‏» سے وہ زیور مراد ہے جو بنی اسرائیل نے فرعون کی قوم سے مانگ کر لیا تھا۔ «فقذفتها» میں نے اس کو ڈال دیا۔ «وكذالك ألقى‏ السامري» یعنی سامری نے بھی اور بنی اسرائیل کی طرح اپنا زیور ڈالا۔ «فنسي‏ موسى» یعنی سامری اور اس کے تابعدار لوگ کہنے لگے موسیٰ چوک گیا کہ اپنے پروردگار بچھڑے کو یہاں چھوڑ کر کوہ طور پر چلا گیا۔ «لا يرجع إليهم قولا‏» یعنی یہ نہیں دیکھتے کہ بچھڑا ان کی بات کو جواب تک نہیں دے سکتا۔ «همسا‏» پاؤں کی آہٹ۔ «حشرتني أعمى‏» یعنی مجھ کو دنیا میں دلیل اور حجت معلوم ہوتی تھی یہاں تو نے بالکل مجھ کو اندھا کر کے کیوں اٹھایا۔ اور ابن عباس نے کہا «لعلي اتيكم منها بقبس» کے بیان میں کہ موسیٰ اور ان کے ساتھی راستہ بھول گئے تھے ادھر سردی میں مبتلا تھے کہنے لگے اگر وہاں کوئی راستہ بتانے والا ملا تو بہتر ورنہ میں تھوڑی سی آگ تمہارے تاپنے کے لیے لے آؤں گا۔ سفیان بن عیینہ نے (اپنی تفسیر میں) کہا «أمثلهم‏» یعنی ان میں کا افضل اور سمجھدار آدمی۔ اور ابن عباس نے کہا «هضما‏» یعنی اس پر ظلم نہ ہو گا اور اس کی نیکیوں کا ثواب کم نہ کیا جاوے گا۔ «عوجا‏» نالا کھڈا۔ «أمتا‏» ٹیلہ بلندی۔ «سيرتها‏ الأولى» یعنی اگلی حالت پر۔ «النهى‏» پرہیزگاری یا عقل۔ «ضنكا‏» بدبختی۔ «هوى‏» بدبخت ہوا۔ «المقدس‏» برکت والی۔ «طوى‏» اس وادی کا نام تھا۔ «بملكنا‏» (بہ کسرئہ میم مشہور قرآت بہ ضمہ میم ہے بعضوں نے بہ ضم میم پڑھا ہے) یعنی اپنے اختیار اپنے حکم سے۔ «سوى‏» یعنی ہم میں اور تم میں برابر کے فاصلہ پر۔ «يبسا‏» خشک علی قدر اپنے معین وقت پر جو اللہ پاک نے لکھ دیا تھا۔ «لا تنيا‏» ضعیف مت بنو، یا سستی نہ کرو۔