صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
21. بَابٌ:
باب:۔۔۔
n
‏‏‏‏ .
حدیث نمبر: 4739
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" بَنِي إِسْرَائِيلَ، وَالْكَهْفُ، وَمَرْيَمُ، وَطه، وَالْأَنْبِيَاءُ، هُنَّ مِنَ الْعِتَاقِ الْأُوَلِ، وَهُنَّ مِنْ تِلَادِي". وَقَالَ قَتَادَةُ: جُذَاذًا: قَطَّعَهُنَّ، وَقَالَ الْحَسَنُ: فِي فَلَكٍ: مِثْلِ فَلْكَةِ الْمِغْزَلِ، يَسْبَحُونَ: يَدُورُونَ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: نَفَشَتْ: رَعَتْ لَيْلًا، يُصْحَبُونَ: يُمْنَعُونَ، أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً، قَالَ: دِينُكُمْ دِينٌ وَاحِدٌ، وَقَالَ عِكْرِمَةُ: حَصَبُ: حَطَبُ بِالْحَبَشِيَّةِ، وَقَالَ غَيْرُهُ: أَحَسُّوا: تَوَقَّعُوا مِنْ أَحْسَسْتُ، خَامِدِينَ: هَامِدِينَ، وَالْحَصِيدُ مُسْتَأْصَلٌ يَقَعُ عَلَى الْوَاحِدِ وَالِاثْنَيْنِ وَالْجَمِيعِ، لَا يَسْتَحْسِرُونَ: لَا يُعْيُونَ وَمِنْهُ حَسِيرٌ وَحَسَرْتُ بَعِيرِي عَمِيقٌ بَعِيدٌ، نُكِّسُوا: رُدُّوا، صَنْعَةَ لَبُوسٍ: الدُّرُوعُ، تَقَطَّعُوا أَمْرَهُمْ: اخْتَلَفُوا الْحَسِيسُ، وَالْحِسُّ، وَالْجَرْسُ، وَالْهَمْسُ وَاحِدٌ، وَهُوَ مِنَ الصَّوْتِ الْخَفِيِّ، آذَنَّاكَ: أَعْلَمْنَاكَ، آذَنْتُكُمْ: إِذَا أَعْلَمْتَهُ فَأَنْتَ وَهُوَ عَلَى سَوَاءٍ لَمْ تَغْدِرْ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: لَعَلَّكُمْ تُسْأَلُونَ: تُفْهَمُونَ، ارْتَضَى: رَضِيَ، التَّمَاثِيلُ: الْأَصْنَامُ السِّجِلُّ الصَّحِيفَةُ.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے، کہا ہم سے شعبہ نے، انہوں نے ابواسحاق سے سنا، کہا میں نے عبدالرحمٰن بن یزید سے سنا، انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے وہ کہتے تھے کہ سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ کہف اور سورۃ مریم اور سورۃ طہٰ اور سورۃ انبیاء اگلی بہت فصیح سورتوں میں سے ہیں (جو مکہ میں اتری تھیں) اور میری پرانی یاد کی ہوئی ہیں۔ قتادہ نے کہا «جذاذا‏» کا معنی ٹکڑے ٹکڑے۔ اور حسن بصری نے کہا «كل في فلك‏» یعنی ہر ایک تارہ ایک ایک آسمان میں گول گھومتا ہے، جیسے سوت کاتنے کا چرخہ۔ «يسبحون‏» یعنی گول گھومتے ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «نفشت‏» کے معنی چر گئیں۔ «يصحبون‏» کے معنی روکے جائیں گے۔ بچائے جائیں گے۔ «أمتكم أمة واحدة‏» یعنی تمہارا دین اور مذہب ایک ہی دین اور مذہب ہے۔ اور عکرمہ نے کہا «حصب‏» حبشی زبان میں جلانے کی لکڑیوں ایندھن کو کہتے ہیں۔ اور لوگوں نے کہا لفظ «أحسوا‏» کے معنی توقع پائی یہ «أحسست‏» سے نکلا ہے یعنی آہٹ پائی۔ «خامدين‏» کے معنی بجھے ہوئے (یعنی مرے ہوئے)۔ «حصيد» کے معنی جڑ سے اکھاڑا گیا، واحد اور تثنیہ اور جمع سب پر یہی لفظ بولا جاتا ہے۔ «لا يستحسرون‏» کے معنی نہیں تھکے اسی سے ہے لفظ «حسير» تھکا ہوا۔ اور «حسرت بعيري‏.‏» کے معنی میں نے اپنے اونٹ کو تھکا دیا۔ «عميق» ‏‏‏‏ کے معنی دور دراز۔ «نكسوا‏» یہ کفر کی طرف پھیرے گئے۔ «صنعة لبوس‏» زرہیں بنانا۔ «تقطعوا أمرهم‏» یعنی اختلاف کیا، جدا جدا طریقہ اختیار کیا۔ «لا يسمعون حسيسها» کے معنی اور لفظ «حس» اور «جرس» اور «همس» کے معانی ایک ہی ہیں یعنی پست آواز۔ «آذناك‏» ہم نے تجھ کو آگاہ کیا عرب لوگ کہتے ہیں۔ «آذنتكم‏» یعنی میں نے تم کو خبر دی تم ہم برابر ہو گئے میں نے کوئی دغا نہیں کی جب آپ مخاطب کو کسی بات کی خبر دے چکے تو آپ اور وہ دونوں برابر ہو گئے اور آپ نے اس سے کوئی دغا نہیں کی۔ اور مجاہد نے کہا «لعلكم تسألون‏» کے معنی یہ ہیں شاید تم سمجھو۔ «ارتضى‏» کے معنی پسند کیا راضی ہوا۔ «التماثيل‏» کے معنی مورتیں بت۔ «السجل» معنی کے خطوں کا مجموعہ دفتر۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4739  
4739. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: سورہ بنی اسرائیل، سورہ کہف، سورہ مریم، سورہ طہ اور سورہ انبیاء اول درجے کی عمدہ سورتوں میں سے ہیں اور یہ سورتیں میری پرانی یاد کی ہوئی ہیں۔ حضرت قتادہ نے کہا: جُذَٰذًا کے معنی ہیں: اس نے بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ امام حسن بصری نے فِى فَلَكٍ کے متعلق فرمایا: وہ چرخے کے تکلے کی طرح ہیں۔ يَسْبَحُونَ کے معنی ہیں: گھومتے ہیں، یعنی ہر ایک چرخے کے تکلے کی طرح اپنے دائرے میں گھومتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: نَفَشَتْ کے معنی ہیں: وہ بکریاں رات کے وقت چر گئیں۔ يُصْحَبُونَ ﴿٤٣﴾ کے معنی ہیں: روکے جائیں گے، یعنی انہیں کوئی بھی ہمارے عذاب سے نہیں بچائے گا۔ ﴿أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَٰحِدَةً﴾ میں امت کے معنی "دین" ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: تم سب کا دین ایک ہے، یعنی ہر وہ جماعت جو ایک دین پر ہو، اسے امت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حضرت عکرمہ نے کہا: حبشی زبان میں ﴿حَصَبُ جَهَنَّمَ﴾ کے معنی ہیں: جہنم کا ایندھن۔ عکرمہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4739]
حدیث حاشیہ:
عمیق سورۃ حج کی آیت ﴿یأتینَ مِن کُل فَج عَمِیق﴾ (الحج: 27)
کا لفظ ہے۔
شاید کاتب نے غلطی سے اسے سورہ انبیاء کے ذیل میں لکھ دیا۔
کوئی مناسبت معنوی بھی معلوم نہیں ہوتی کسی اہل علم کو نظر آئے تو مطلع فرمائیں۔
خادم شکر گذار ہوگا۔
(راز)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4739   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4739  
4739. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: سورہ بنی اسرائیل، سورہ کہف، سورہ مریم، سورہ طہ اور سورہ انبیاء اول درجے کی عمدہ سورتوں میں سے ہیں اور یہ سورتیں میری پرانی یاد کی ہوئی ہیں۔ حضرت قتادہ نے کہا: جُذَٰذًا کے معنی ہیں: اس نے بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ امام حسن بصری نے فِى فَلَكٍ کے متعلق فرمایا: وہ چرخے کے تکلے کی طرح ہیں۔ يَسْبَحُونَ کے معنی ہیں: گھومتے ہیں، یعنی ہر ایک چرخے کے تکلے کی طرح اپنے دائرے میں گھومتا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: نَفَشَتْ کے معنی ہیں: وہ بکریاں رات کے وقت چر گئیں۔ يُصْحَبُونَ ﴿٤٣﴾ کے معنی ہیں: روکے جائیں گے، یعنی انہیں کوئی بھی ہمارے عذاب سے نہیں بچائے گا۔ ﴿أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَٰحِدَةً﴾ میں امت کے معنی "دین" ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: تم سب کا دین ایک ہے، یعنی ہر وہ جماعت جو ایک دین پر ہو، اسے امت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حضرت عکرمہ نے کہا: حبشی زبان میں ﴿حَصَبُ جَهَنَّمَ﴾ کے معنی ہیں: جہنم کا ایندھن۔ عکرمہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4739]
حدیث حاشیہ:

عتاق، عتیق کی جمع ہے۔
جو چیز نفاست وعمدگی میں انتہا کو پہنچی ہوئی ہو اسے عرب لوگ عتیق کہتے ہیں، نیز عتیق قدیم کے معنی میں بھی ہے۔
یہاں دونوں معنی درست ہیں۔
تلاد، خاندان میں پرانے زمانے سے مال کا ہونا تلاد کہلاتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصود یہ ہے کہ یہ سورتیں میرے محفوظات قدیمہ میں سے ہیں۔
بہرحال یہ پانچوں سورتیں اعلیٰ درجے کی ہیں کیونکہ ان میں سے ہر ایک کی ابتدا ایک عجیب امر سے ہوتی ہے جو عام عادت کے خلاف ہے، چنانچہ بنی اسرائیل کی ابتدا آسمانی سیر اور کہف کی ابتدا اصحاب کہف کے واقعے سے ہے۔
اسی طرح سورہ مریم کی ابتدا حضرت زکریا علیہ السلام کے واقعے سے ہے جبکہ انھوں نے بڑھاپے میں بچے کی خواہش کی، نیز اس میں حضرت مریم علیہ السلام کا عجیب وغریب واقعہ بھی بیان کیا گیا ہے۔
سورہ طہٰ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعات ہیں۔
سورہ انبیاء علیہ السلام میں قیامت اورحضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ بیان ہوا ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4739