صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ -- کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
2. بَابُ: {وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَى حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انْقَلَبَ عَلَى وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالآخِرَةَ} إِلَى قَوْلِهِ: {ذَلِكَ هُوَ الضَّلاَلُ الْبَعِيدُ} :
باب: آیت کی تفسیر ”اور انسانوں میں سے بعض آدمی ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ کی عبادت کنارہ پر (کھڑا ہو کر یعنی شک اور تردد کے ساتھ کرتا ہے۔) پھر اگر اسے کوئی نفع پہنچ گیا تو وہ اس پر جما رہا اور اگر کہیں اس پر کوئی آزمائش آ پڑی تو وہ منہ اٹھا کر واپس چل دیا۔ یعنی مرتد ہو کر دنیا و آخرت دونوں کو کھو بیٹھا۔ ”اللہ تعالیٰ کے ارشاد“ یہی تو ہے انتہائی گمراہی سے یہی مراد ہے۔
أَتْرَفْنَاهُمْ، وَسَّعْنَاهُمْ.
‏‏‏‏ «أترفناهم» کے معنی ہم نے ان کی روزی کشادہ کر دی۔
حدیث نمبر: 4742
حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَى حَرْفٍ سورة الحج آية 11، قَالَ: كَانَ الرَّجُلُ يَقْدَمُ الْمَدِينَةَ، فَإِنْ وَلَدَتِ امْرَأَتُهُ غُلَامًا وَنُتِجَتْ خَيْلُهُ، قَالَ:"هَذَا دِينٌ صَالِحٌ، وَإِنْ لَمْ تَلِدِ امْرَأَتُهُ، وَلَمْ تُنْتَجْ خَيْلُهُ، قَالَ: هَذَا دِينُ سُوءٍ".
مجھ سے ابراہیم بن حارث نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن ابی بکیر نے، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابوحصین نے ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت «ومن الناس من يعبد الله على حرف‏» اور انسانوں میں کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ کی عبادت کنارہ پر (کھڑا ہو کر) کرتا ہے۔ کے متعلق فرمایا کہ بعض لوگ مدینہ آتے (اور اپنے اسلام کا اظہار کرتے) اس کے بعد اگر اس کی بیوی کے یہاں لڑکا پیدا ہوتا اور گھوڑی بھی بچہ دیتی تو وہ کہتے کہ یہ دین (اسلام) بڑا اچھا دین ہے، لیکن اگر ان کے یہاں لڑکا نہ پیدا ہوتا اور گھوڑی بھی کوئی بچہ نہ دیتی تو کہتے کہ یہ تو برا دین ہے اس پر مذکور بالا آیت نازل ہوئی۔
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4742  
4742. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے درج ذیل آیت کے متعلق فرمایا: بعض لوگ ایسے ہیں جو کنارے (شک) پر عبادت کرتے ہیں۔ کوئی آدمی مدینہ طیبہ آتا، اگر اس کی بیوی بچہ جنم دیتی یا اس کی گھوڑی کا بچہ پیدا ہوتا تو کہتا: یہ دین ٹھیک ہے اور اگر بیوی بچہ نہ جنتی اور نہ گھوڑی ہی کو کچھ پیدا ہوتا تو کہتا: یہ دین برا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4742]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں اس شخص کا حال بیان ہوا ہے جو دین کے بارے میں شک وشبہ اور تذبذب کا شکار رہتا ہے۔
اسے دین میں استقامت نصیب نہیں ہوتی کیونکہ اس کی نیت صرف دنیوی مفادات کا حصول ہوتا ہے، ملتے رہیں تو ٹھیک بصورت دیگر وہ کفر وشرک کی طرف لوٹ جاتا ہے۔
اس کے برعکس جو سچے مسلمان ہوتےہیں اور ایمان ویقین سے سرشار ہوتے ہیں وہ تنگی اور خوشحالی کودیکھے بغیر دین پر قائم رہتے ہیں۔
نعمتوں سے بہر اورہوتے ہیں تو شکر ادا کرتے ہیں اور اگر تکلیفوں سے دوچار ہو جاتے ہیں تو صبر کرتے ہیں۔

حافظ ا بن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بعض روایات کے حوالے سے یہ وصف نومسلم اعرابیوں کا بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 563/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4742